آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا

aaj bohat yaad kiya

aaj bohat yaad kiya

آج روٹھے ہوئے ساجن کو بہت یاد کیا
اپنے اجڑے ہوئے گلشن کو بہت یاد کیا

جب کبھی تقدیر نے گھیرا ہے ہمیں
گیسوئے یار کی الجھن کو بہت یاد کیا

شمع کی جوت پہ جلتے ہوئے پروانوں نے
اک ترے شعلہ دامن کو بہت یاد کیا

جس کے ماتھے پہ نئی صبح کا جھومر ہو گا
ہم نے اس وقت کی دلہن کو بہت یاد کیا

آج ٹوٹے ہوئے سپنوں کی بہت یاد آئی ہے
آج بیتے ہوئے ساون کو بہت یاد کیا

ہم سرِ طور بھی مایوس تجلی ہی رہے
اس درِ یار کی چلمن کو بہت یاد کیا

مطمئن ہو ہی گئے دام و قفس میں ساغر
ہم اسیروں نے نشیمن کو بہت یاد کیا

ساغر صدیقی