آج مسلم امہ تعلیم میں پیچھے کیوں

Muslims

Muslims

حضرت علی کا قول ہے جو لوگ تم سے زیادہ علم رکھتے ہیں اِن سے علم حاصل کرواور جو کم علم ہیں ان کو اپنا علم سِکھاؤ اور آپ ہی کا ایک قول یہ بھی ہے کہ جس نے علم حاصل نہیں کیا وہ یتیم ہییعنی یہ کہ انسانیت کی تکمیل علم حاصل کرنے ہی سے ممکن ہے تو پھر کیا آپ بھی ہماری اِس بات سے متفق نہیں ہوں گے کہ آج دنیا کے سامنے ہم پاکستانی جس معیار پر بھی کھڑے ہیں تھوڑی بہت تعلیم کی وجہ سے ہیں اور ہمیں اِس بات کا بھی یقین ہے کہ ہم کل جس اچھے برے یا اونچے نیچے مقام پر ہوں گے وہ بھی تعلیم کی ہی وجہ سے ہوں گے۔

جبکہ حکیم محمد سعید نے فرمایا ہے کہ علم ایک ایسا سمندر ہے جس میں چھلانگ لگانے کے بعد ہی اِس کی وسعت وعظمت کا اندازہ ہو سکتا ہے اور اِسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ علم ایک بہترین اچھائی ہے جو قوموں کو ترقی سے ہمکنار کرتی اور دوسری طرف جہالت وہ بدترین برائی ہے جس پر قائم رہ کر قومیں ذلت کی کھائی میں گر جاتی ہیں اور بھوک و افلاس، تنگدستی اور مایوسی اِن کا مقدر بن جاتیں ہیں علم ایک ایسا پھول ہے جو جتنا زیادہ کِھلتا ہے اتنی ہی زیادہ خوشبو دیتا ہے اور جن اقوام کے پاس جتنا زیادہ علم ہو گا اِن پر قسمت کی دیوی بھی اتنی ہی زیادہ مہربان رہی گی اور وقت بھی اِن کی گرفت میں رہے گا اور وہ بھی اِن اقوام کی مرضی کے مطابق آگے، پیچھے اور تیز اور سست رفتار کے ساتھ حرکت کرے گاتوپھر کیوں نہ قو م کے بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم وتربیت کے خاطر ہمارے حکمران اپنا کوئی ایسا دیرپا اور پائیدار لائحہ عمل مرتب کریں جس سے ہماری قوم کا مستقبل تابناک ہو جائے اور ہم چاردانگِ عالم میں ایک تعلیم اور تہذیب یافتہ قوم کے روپ میں نمودار ہو کر اپنے آج کے حال کو ایک خواب سمجھ کر بھول جائیں اور دنیا کو بتادیں کہ ہم وہی قوم ہیں جِسے دنیا کسی زمانے میں کس نام سے یادکیا کرتی اور جانتی تھی۔

اگرچہ ایک زمانے میں چرچل نے تویہ تک کہہ دیا تھا جس کا یہی قول آج بھی دنیا کے کسی بھی پست ملک کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ثابت ہوتا ہے اِس کا کہنا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کی صحیح تعلیم وتربیت سب سے اچھی سرمایہ کاری ہے اِسی طرح ابن باویس نے بھی اپنی قوم کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا تھا اے میری قوم کے لوگو یہی نوجوان تمہاری پونچی ہیں اور بلندیوںکو چھونے والے یہی ہیں اِن کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری حاکم الوقت پر اپنی اولادوں سے بھی زیادہ عائد ہوتی ہے کیوں کہ کسی بھی قوم کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار اِس کے تعلیم یافتہ لوگوں سے ہی ممکن ہو سکتی ہے مگر ضروری ہے کہ حکمرانِ وقت اپنی قوم کے بچوں کو اپنی اولادوں سے بڑھ کر تعلیم وتربیت کی فکر کرے تو اِس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام عالم میں کوئی قوم اوج ثریا کو نہ پہنچ سکے اِسی لئے توہم بھی یہ کہیں گے کہ آج ہماری اِس بات سے شایدکوئی ذی شعور انکار نہ کرسکے اور وہ یہ صدق دل سے تسلیم بھی کرے کہ ہر زمانے میں یہ بات مصمم حقیقت رہی ہے کہدرست اور موزوں تربیت یافتہ افراد خوش حال گھرانوں کو جنم دیتے ہیں اور خوش حال گھرانے ہی لازمی طور پر خوش حال اور ترقی یافتہ قوم پیداکرنے میں اپنا کلیدی کردار اداکرتے ہیں۔

آج کی اِس 21ویں صدی میںبھی دنیا کے بہت سے ایسے ممالک موجود ہیں جنہوں نے اپنے دیگر شعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں تعلیم پراچھی خاصی توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِن ممالک کے حکمران اپنے سالانہ بجٹ میں تعلیم کے شعبے کو جدید تقاضوں سے ہمکنار کرنے کے لئے اِس میں کئی گناہ اضافہ کر رہے ہیں کیوں کہ وہ یہ بات اچھی طرح سے سمجھتے اور جانتے ہیں کہ اگر دیگر شعبوں میں ترقی کرنی ہے تو یہ ترقی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی اور قوم کو تعلیم سے آراستہ کئے بغیر دوسرے شعبوں میںکامیابی مشکل بلکہ ناممکن بھی ہو گی۔

ہمیں اوپری سطور میں علم اور تعلیم وتربیت سے متعلق اتنی ساری خوبیاں کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ آج جب ہم اپنی 64سالہ تاریخ کا ماضی کھنگالنے کی کوشش کر رہے ہیں تو ہمیں سال بہ سال اپنا معیاری تعلیم تیزی سے زوال کی جانب جاتا ہوا ہی دکھائی دے رہا ہے اور ہم کفِ افسوس کے اور کچھ نہ کر پا رہے ہیں اور آج جب ہم نے اِس حوالے سے اپنا موازنہ اپنے پڑوسی ملک بھارت سے کیا تو ہمیں اپنا وجود زمین میں دھنستاہواہی محسوس ہوااور ہم خود کو ایک جاہل قوم کا فرد تصور کئے بغیر نہ رہ سکے اور دوسری جانب جب ہم نے امتِ مسلمہ کے ماضی سے ہٹ کر آج کے معیارے تعلیم کا موزانہ یورپی ممالک سے کیاتو ہمیں اِس بات کا شدت سے احساس ہواکہ ایک ہم پاکستانی ہی نہیں بلکہ ساری مسلم امہ ہی تعلیم کے میدان میں یورپی اور دیگر ادیان کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔

اِس حوالے سے ایک خبر نے ہمارے اوسان اور زیادہ خطا کر دیئے کہ برطانیہ اور امریکا کی دانشگاہیں دنیاکی 10بہترین جامعات قرار پائیں ہیں جبکہ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اِن میں کوئی بھی مسلم ملک شامل نہیں ہے خبرکچھ اِس طرح ہے کہشہرہ آفاق یونیورسٹی کیمبرج امریکا میں تحقیق و دانش کے عالمی مرکزہارورڈکے مقابل عشاریہ کی حفیف فرق کے ساتھ 2011کی درجہ بندی میں دنیا کی پہلی معیاری یونیورسٹی قرار پائی ہے جبکہ ہارورڈ کے بعد امریکاکی ہی یل یونیورسٹی تیسرے، برطانوی یونیورسٹی کالج آف لندن چوتھے اور میسا چوسٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ایم آئی ٹی بہترین عالم یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے، آکسفورڈچھٹے، امپریل کالج آف لندن ساتویں، یورنیوسٹی آف شگاگو آٹھویں، کیلیفورنیاانسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نویں اور امریکا کی ہیپرنسٹن یورنیوسٹی دنیا کی دسویں یونیورسٹی ہے۔

مگر یہاں افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ جس دین اسلام کی بنیاد ہی تعلیم پر ہے اِس دین سے تعلق رکھنے والے مسلم ممالک کی کوئی بھی یونیورسٹی اِن دس نمبروں میں شامل نہیں تھی حالانکہ اسلامی ممالک میں کل 580یونیورسٹیاں ہیں مگر کوئی بھی اِس قابل نہیں کہ وہ دس نمبروں میں سے کسی بھی پوزیشن پر آتی اور اِس سے زیادہ حیران کن بات تو یہ ہے کہ دنیاکے سارے اسلامی ممالک کی580یونیورسٹیاں ایک طرف مگر بھارت جیسے پونے دو ارب کے لگ بھگ آبادی والے دنیاکے غریب ملک میں ہی583یونیورسٹیاں مستحکم انداز سے اپنے نوجوانوں کو تعلیم کی روشنی سے مستفید کر رہی ہیں۔

جبکہ ایشائی ممالک میں بھارت، جنوبی کوریا اور چین ایسے ممالک ہیں جو اپنے یونیوسٹیوں کے طالب علموں پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں اِسی طرح سروے کے مطابق دنیا کی 400بہترین یونیورسٹیوں میں بھی کوئی پاکستانی جامعہ شامل نہیں ہے صرف سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی ضرور شامل ہے اور اِس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

جبکہ اطلاع یہ ہے کہ ایک امریکی جریدے یوایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ نے یہ درجہ بندی تعلیم اور کیریئر پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی اداریکوئیک کیورلی سیمونٹنگسے کرائی ہے جس سے متعلق یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اِس سروے رپورٹ میں دنیاکی یونیورسٹیوں کی علمی ساکھ، عملے کی ساکھ، فیکلٹی، طلباکا تناسب، انٹرنیشنل فیکلٹی، غیرملکی اسٹوڈنٹس اور فی استاد سائٹیشن حوالے کی تعدادکو درجہ بندی کرنے والے انڈیکیٹر بنایا گیا ہے۔

اِدھر اِس سارے منظر اور پس منظر میں یہ ہم جیسے دنیا کے ایٹمی ملک پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور 19کروڑ عوام کے لئے انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی ممالک کی 580 بشمول پاکستان کی 128یونیورسٹیوں کے مقابلے میں صرف بھارت کی ہی 583یونیورسٹیاں ہیں جو اپنے یہاں نوجوانوںکو جدید علوم و فن سے روشناس کرانے میں دن رات مصروفِ عمل ہیں اور ایک اسلامی ممالک ہی جو سب مل کر بھی بھارت جتنی یونیورسٹیاں نہیں بناسکے ہیں اور سروے کی مطابق دنیا کی 400بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی شامل نہیں ہے جبکہ اِن میں بھارت کی 2اور سعودی عرب کی ایک یونیورسٹی دنیاکی بہترین یونیورسٹیوں میں ضرور شامل ہیں اور دوسری طرف صرف امریکا میں 5ہزار 758یونیورسٹیاں ہیں ہاں البتہ یہ بات ہم مسلم امہ کے لئے ضرور حوصلہ افزارہی کہ اِس سروے میں اِس بات کو کھلے دل اور دماغ سے ضرور تسلیم کرلیاگیاہے دنیاکی 10قدیم یونیورسٹیوں کے حوالے سے مصر کی جامعہ الازہر وہ قدیم ترین مستند یونیورسٹی کا درجہ قرار پائی ہے جو 969ہجری میں قائم ہوئی تھی جس کے سوت سے آج بھی امتِ مسلمہ سیراب ہو رہی ہے مگر اِس کے باوجود بھی ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترقی اور خوشحالی کاانحصار صرف ایک مصر کی جامعہ الازہر سے وابستہ نہیں کر لیناچاہئے۔

بلکہ دنیاکے جدید علوم کے حصول کے خاطر یورپی طرز کی زیادہ سے زیادہ یونیورسٹیاں اپنے یہاں بنائیں جائیں تاکہ ہم بھی جدید علوم و فن سے یورپ کا مقابلہ کرسکیں اور اپنے وسائل کو اپنے حساب سے خرچ کریں نہ کہ اِنہیں استعمال کرنے کے لئے یورپ سے ماہرین بلوائیں اور خود کو اِن کے رحم وکرم پر چھوڑ کر اپنی ترقی اور خوشحالی کی راہیں خود ہی بند کراتے رہیں اور اِس کے ساتھ ہی ہم آخر میں یہ بات کہہ کر اجازت چاہیں گے کہ کیا ہم واقعی علم کے لئے اپنے بجٹ میں زیادہ رقوم مختص نہ کرکے قوم کو علم کے بغیر یتیم بناناچاہتے ہیں یا تعلیم کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے اپنے کل بجٹ کا آدھاحصہ مختص کرکے ترقی کرناچاہتے ہیں یہ ہے ہمارااپنے حکمرانوں اورسیاستدانوں سے سوال اور سوالیہ نشان۔

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم