آنکھ بن جاتی ہے ساون کی گھٹا شام کے بعد

shaam ke baad

shaam ke baad

آنکھ بن جاتی ہے ساون کی گھٹا شام کے بعد
لوٹ جاتا ہے اگر کوئی خفا شام کے بعد

وہ جو ٹل جاتی رہی سر سے بلا شام کے بعد
کوئی تو تھا کہ جو دیتا تھا دعا شام کے بعد

آہیں بھرتی ہے شب ہجر یتیموں کی طرح
سرد ہو جاتی ہے ہر روز ہوا شام کے بعد

شام تک قید رہا کرتے ہیں دل کے اندر
درد ہو جاتے ہیں سارے ہی رِہا شام کے بعد

لوگ تھک ہار کے سو جاتے ہیں لیکن جاناں
ہم نے خوش ہو کے ترا درد سہا شام کے بعد

شام سے پہلے تلک لاکھ سلائے رکھیں
جاگ اٹھتی ہے محبت کی انا شام کے بعد

خواب ٹکرا کے پلٹ جاتے ہیں بند آنکھوں سے
جانے کس جرم کی کس کو ہے سزا شام کے بعد

چاند جب رو کے ستاروں سے گلے ملتا ہے
اک عجب رنگ کی ہوتی ہے فضا شام کے بعد

ہم نے تنہائی سے پوچھا کہ ملو گی کب تک
اس نے بے چینی سے فوراً ہی کہا شام کے بعد

تم گئے ہو تو سیاہ رنگ کے کپڑے پہنے
پھرتی رہتی ہے مرے گھر میں قضا شام کے بعد

لوٹ آتی ہے مری شب کی عبادت خالی
جانے کس عرش پہ رہتا ہے خدا شام کے بعد

دن عجب مٹھی میں جکڑے ہوئے رکھتا ہے مجھے
مجھ کو اس بات کا احساس ہوا شام کے بعد

کوئی بھولا ہوا غم ہے جو مسلسل مجھ کو
دل کے پاتال سے دیتا ہے صدا شام کے بعد

مار دیتا ہے اجڑ جانے کا دہرا احساس
کاش ہو کوئی کسی سے نہ جدا شام کے بعد

فرحت عباس شاہ