آگ کے درمیان سے نکلا

house fire

house fire

آگ کے درمیان سے نکلا
میں بھی کس امتحان سے نکلا

پھر ہوا سے سُلگ اٹھے پتے
پھر دھواں گلستان سے نکلا

جب بھی نکلا ستارئہ اُمید
کہر کے درمیان سے نکلا

چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں
کوئی سایہ مکان سے نکلا

ایک شعلہ پھر ایک دھویں کی لکیر
اور کیا خاکدان سے نکلا

چاند جس آسمان میں ڈوبا
کب اسی آسمان سے نکلا

یہ گُوہر جس کو آفتاب کہیں
کس اندھیرے کی کان سے نکلا

شکر ہے اس نے بیوفائی کی
میں کڑے امتحان سے نکلا

لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیب
کام جس مہربان سے نکلا

شکیب جلالی