ابھی ٹوٹا ہے اک تارا تُو شاید لوٹ کر آئے

man waiting

man waiting

ابھی ٹوٹا ہے اک تارا تُو شاید لوٹ کر آئے
سجا رکھا ہے گھر سارا تُو شاید لوٹ کر آئے

بجز خاموشیوں تنہائیوں کے کچھ نہیں باقی
نظر پھر بھی ہے آوارہ تُو شاید لوٹ کر آئے

مسافر لوٹ کر آتے نہیں ہیں راہِ منزل پہ
میں اُمیدوں کا بنجارہ تُو شاید لوٹ کر آئے

اسے رہتی ہے بے چینی کہ جلد آ جائے وہ لمحہ
مرا دل صورتِ پارہ تُو شاید لوٹ کر آئے

مری آنکھوں کی بینائی ہے یا ہے آرزو تیری
میں دیکھوں پھر وہ نظارہ تُو شاید لوٹ کر آئے

توقعات کا اک سلسلہ در سلسلہ سوچیں
وہ آئے وقت دوبارہ تُو شاید لوٹ کر آئے

بجھا ہے عشق میں جل کر فقط اب راکھ باقی ہے
قمر تیرا یہ بیچارہ تُو شاید لوٹ کر آئے

سید ارشاد قمر