اس سے وفا کی آس نہیں ہم بھی کیا کریں

zakhmi phool

zakhmi phool

اس سے وفا کی آس نہیں ہم بھی کیا کریں
ایک عمر تو گزر گئی کب تک وفا کریں

بزم خیال کھوئی گئی کوئے یار میں
تنہائی ذہن میں بھی اب چپ رہا کوئی

اے پر شکستگی ترا احسان اٹھائیے
پرواز کی سعی میں تماشہ بنا کریں

ایک بار مشتِ خاک سے فرصت نہیں ملی
کیسے اٹھائیں سر کو، کوئی بات کریں

ہے میکدہ یہیں کہیں راہِ حرم کے بیچ
چلتے میں ایک جام اگر پی لیا کریں

رضوی غریب شہر ہے ایسا، عجب نہیں
کوئے جنوں سے اس کے صحیفے ملا کریں

شاہد رضوی