( البینات شرح مکتوبات )علماء راسخین ہی انبیاء کے نائب ہوتے ہیں

علماء راسخین ہی انبیاء کے نائب ہوتے ہیں

shaykh Ahmad sirhindi grave

shaykh Ahmad sirhindi grave

مکتوب
ترجمہ:
چونکہ خاتم الرسل علیہ وعلیہم الصلوات والتسلیمات کی شریعت نسخ و تبدیل سے محفوط ہے۔ آپکی امت کے علماء کو انبیاء علیہم السلام کا حکم دیکر تقویت شریعت اور تائید ملت کے کام کو انہیں تفویض فرما دیا۔ یونہی ایک اولوالعزم پیغمبر کو انکا متیع بنا کر آپکی شریعت کو ترویج بخشی۔

شرح
سطور بالا میں حضرت امام ربانی ( حضرت مجدد الف ثانی ) قدس سرہ العزیز اس امر کی وضاحت فرما رہے ہیں کہ اگرچہ شریعت مصطفویہ علی صاحبہاالصلوات منسوخ ہونے سے محفوظ رہے مگر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت مبارک کے ہزار برس بعد تجدید شریعت، تائید ملت اور تخریب بدعت کا کام علمائے راسخین اور مددین کرام رحمہ اللہ علیہم کو سونپا گیا تاکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی نیابت و خلافت میں ترویج شریعت اور احیائے سنت کا فریضہ سرانجام دیں تا کہ شریعت مطہرہ اور سنت نبویہ علیٰ صاحبہاالصلوات ہر قسم کی بدعات و خرافات سے پاک ہو جائے۔

بینہ: واضح رہے کہ اس مکتوب گرامی کو نہ سمجھنے کیوجہ سے حاسدین و معاندین نے حضرت امام ربانی قدس سرہ العزیز پر دعویٰ نبوت کا الزام لگا دیا جس کا جواب آپ نے خود ہی متن بالا میں بیان فرما دیا اسکی قدرے تفصیل کچھ یوں ہے۔

بتقاضائے حکمت ربانی حقیقت محمدیہ علیٰ صاحب الصلوات جو عالم خلق کیطرف متوجہ و مربی تھی اسے عالم بالا کیطرف متوجہ کر لیا گیا تو امت محمدیہ علیٰ صاحب الصلوات کی عمر خیریت اختتام پذیر ہونے کیوجہ سے ہمہ گیر زوال شروع ہو گیا۔

صوفیائے خام، علمائے سوئ، امرائے سلطنت اور عمائدین مملکت آزاد خیالی کے زعم میں مبتلا ہو کر ہنود و یہود و غیرہا کی رسومات و عادات کے پابند ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جلال الدین اکبر کے وضع کردہ دین الہٰی نے دین اسلام کی اصلی صورت و حقیقت کو بدعات و خرافات کے دبیز پردوں میں چھپا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اندریں حالات ضرورت تھی کسی ایسے مرد وحید اور فرد فرید کی جو حقیقت محمدیہ علی صاحبہاالصلوات کی نیابت و خلافت پر متمکن ہو اور اپنی حکمت بالغہ دعوات صالحہ، تصرفات باطنیہ اور توجہات قدسیہ سے ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کر دے جو محدثات و منکرات کا خاتمہ کر کے دین اسلام کی صحیح صورت اور خدوخال نمایاں کر دے۔ لہٰذا یہ عظیم فریضہ حضرت سیدنا مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز نے سرانجام دیا۔ ( فالحمد للہ علیٰ ذالک)

حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور حضرت سیدنا امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ظہور تک ہزارہ دوم میں جتنی بھی اسلامی تحریکیں اٹھیں گی، عقائد اسلامیہ کی تصیح، اعمال صالحہ کی تعمیل، ملت کی تعمیر و تشکیل میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان تمام تحریکات پر حضرت امام ربانی قدس سرہ العزیز کے روحانی تصرفات و تاثیرات اور باطنی توجہات و برکات کار فرما ہونگی۔ ( وللہ الحمد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکتوب
ترجمہ: جاننا چاہیے کہ خاتم الرسل صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے ہزار برس بعد آپ کی امت کے اولیاء جن کا ظہور ہو گا اگرچہ بہت قلیل ہونگے لیکن کامل ہونگے تاکہ اس شریعت کی تقویت بدرجہ اتم کر سکیں۔

شرح
یہاں حضرت امام ربانی قدس سرہ العزیز رحلت نبوی علیٰ صاحبہاالصلوات کے ہزار برس بعد منصئہ شہور ہونے والے اولیاء کرام کی اکملیت کا تذکرہ فرما رہے ہیں۔ برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والے قارئین اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ ولی اکمل جس نے دین اسلام کے فروغ و احیاء کیلئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں وہ سیدنا مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز کی شخصیت ہے۔
بقول شاعر
نبی نیست لیکن برنگ نبی
بجو شد ز کوئش ہزاراں ولی
آپکے مرشد و مربی خواجہ بے رنگ حضرت باقی باللہ احراری قدس سرہ العزیز نے آپکے متعلق خوب کہا۔
” میاں شیخ احمد آفتابی است کہ مثل ماہزاراں ستارگان در ضمن ایشاں گم است وازکمل اولیاء متقدمین خال خالے مثل ایشاں گزشتہ باشند۔”
ترجمہ: یعنی میاں شیخ احمد سرہندی ایسے آفتاب ہیں کہ ہم جیسے ہزاروں ستارے انکے انوار میں گم ہیں اور کاملین اولیائے متقدمین میں ان جیسا خال خال ہوا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکتوب
ترجمہ:
المختصر اس طبقہ کے اولیاء کے کمالات، صحابہ کرام علیہم الرضوان کے کمالات کے مشابہ ہیں اگرچہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد صحابہ کرام علیہم الرضوان کو فضیلت حاصل ہے مگر یہ ایسا مقام ہے جسے کمال مشابہت کیوجہ سے ایکدوسرے پر فضیلت نہیں دے سکتے۔

شرح
سطور بالا میں اولیائے آخریں کے کمالات کا کمالات صحابہ علیہم الرضوان کیساتھ مشابہت کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اعلائے کلمہ حق کی خاطر مال و منال اور اوطان و اولاد وغیرہ کو قربان کر کے دین اسلام کی چہار دانگ عالم میں بالا دستی قائم کر دی، ایسے ہی قرب قیامت تشریف لانے والے علمائے راسخین اور اولیائے کاملین بھی کفر کا قلع قمع کر کے دین اسلام کو روئے زمین پر غالب کر دینگے۔

دونوں فریقوں میں کمال مشابہت کا بنا پر ہم ایکدوسرے پر فضیلت نہیں دے سکتے۔

چونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اولین و آخرین دونوں فریقوں کے احوال سے آگاہی حاصل تھی۔ اس لیے ” لا ادری ” ( میں نہیں جانتا)نہیں فرمایا بلکہ ” لا یدری ” کہا یعنی ( لوگوں کو معلوم نہیں) اور ” خیر القرون قرنی ” کہہ کر فریق اول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خیریت و فضیلت کو بیان فرما دیا۔

رہے تابعین عظام اور تبع تابعین کرام رحمہ اللہ علیہم تو انکی خیریت بھی ارشاد نبوی علیٰ صاحبہا الصلوات ” خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ” سے ثابت ہے۔

حضرت امام ربانی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں فریق آخرین سے انکی خیریت اہل اللہ کے ظہور کی کثرت اور بدعتیوں، فاسقوں اور فاجروں کی قلت کے اعتبار سے ہے اور ایسا ہونا فریق آخرین کے بعض اولیاء اللہ کا تابعین اور تبع تابعین سے افضل ہونے کے ہرگز منافی نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

tomb of shaykh Ahmad sirhindi

tomb of shaykh Ahmad sirhindi

آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیان فرمودہ تطبیق بین الاحادیث کی تائید درج ذیل ارشاد نبوی علیٰ صاحبہا الصلوات سے بھی ہوتی ہے۔
ترجمہ:
یعنی فساد امت کے وقت کار خیر بجا لانے والوں کیلئے پچاس آدمیوں کے عمل جتنا ثواب ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان عرض گداز ہوئے یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم انکے پچاس آدمیوں کے عمل جتنا ثواب ہو گا۔؟
فرمایا تمہارے ( صحابہ کرام علیہم الرضوان) پچاس آدمیوں کے عمل کے برابر اسے ثواب ملیگا۔ ( کنزالعمال، رقم الحدیث : 5531)

شارح: ابوالبیان پیر محمد سعید احمد مجددی صاحب