امت پر نبی اکرمۖ کے حقوق

Muhammad PBUH

Muhammad PBUH

تحریر: مولانا رضوان اللہ پشاوری
بندوں پر اگرچہ پروردگار کی نعمتیں بے پناہ ہیں، اس کی نوازشیں بے پایاں اور اس کی عطائیں بے انتہاء ہیں جن کا تقاضا ہے کہ شکر ادا کیا جائے جو ان میں اضافے کا باعث بنے اور اس عزیز و حمید ذات کی تعریف کی جائے تاکہ اس کی رضا مندی حاصل ہو۔ تاہم ان میں سے سب سے بڑی نعمت کہ جس جیسی کوئی اور نعمت نہیں، وہ اللہ کی یہ نوازش ہے کہ اس نے بشیر و نذیر، سراج منیر، رحمة للعالمین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا۔

یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا أَرْسَلْنَاکَ شَاہِداً وَمُبَشِّراً وَنَذِیْراً ٭ وَدَاعِیْاً الَی اللَّہِ بِاِذْنِہِ وَسِرَاجاً مُّنِیْراً( الاحزاب)نبی صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔ اللہ کی اجازت سے اْس کی طرف دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔
لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِینَ اِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَاِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِیْنٍ(آل عمران)

درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ اْن کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے ، اْن کی زندگیوں کو سنوارتا اور اْن کو کتاب اور دانائی کی تعلیم دیتا ہے ، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے ۔
وَمَا أَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ(الانبیائ)اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے تمہیں دراصل دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔
دنیا میں شقاوت اور آخرت میں اللہ کے غضب، جہنم کے دردناک عذاب کا موجوب بننے والی ہلاکت اور گمراہی سے بچانا اتنی بڑی نعمت ہے کہ جس ہستی کے ذریعہ یہ نعمت حاصل ہوئی، ان کے حقوق ملحوظ رکھنا اور ان کو پورا کرنا واجب ہے ۔

یہ اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق ہیں جس نے اپنی اور اپنے ساتھ بھیجی گئی ہدایت و نجات کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’میری مثال اور مجھے اللہ کی طرف سے ملنے والی نبوت کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو کسی قوم کے پاس آئے اور کہے ، اے میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے لشکر دیکھا ہے اور میں تمہیں کھلے عام ڈرا رہا ہوں اور چوکنا کر رہا ہوں، اس لئے سنبھل جائو اور بچائو کا سامان کرو۔ پھر اس کی قوم میں سے ایک گروہ اس کی بات مان کر راتوں رات چل دے اور نجات پا جائے جبکہ دوسرا گروہ اسے جھٹلادے اور اپنی جگہ ٹھہرا رہے ۔چنانچہ لشکر آئے اور اسے ہلاک کر کے بیخ و بن سے اکھاڑ دے ۔ چنانچہ یہی مثال ہے اس آدمی کی جو میری فرمانبرداری کرے اور میری نبوت کے مطابق چلے اور اس آدمی کی جو میری نافرمانی کرے اور اس حق کی تکذیب کرے جو میں لے کر آیا ہوں۔(بخاری ومسلم)
بلاشبہ ان حقوق کی معرفت حاصل کرنا اور ان کی نصیحت کرتے رہنا سب سے اہم واجبات میں سے ایک ہے کیونکہ یہی راستہ ہے جس پر چل کر ان حقوق کو ادا کیا جا سکتااور بخوبی نبھایا جا سکتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اس امت کا کوئی بھی شخص خواہ یہودی ہو نصرانی ، میرے بارے میں سن لیتا ہے پھر مرجاتا ہے اور میری لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان نہیں لاتا تو وہ جہنمی ہے ۔ ( صحیح مسلم / مسند احمد )

Allah and Muhammad PBUH

Allah and Muhammad PBUH

ہر عقلمند اور صاحب ایمان جانتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں جن خیرات و برکات سے نوازا ہے وہ شمار سے باہر ہیں ، وہ خیرات صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہیں بلکہ آخرت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت و غیرہ کی شکل میں ظاہر ہوں گی ، اس پر غور کرلینے کے بعد ہر صاحب بصیرت اس بات کا اعتراف کرلے گا کہ اللہ تبارک و تعالی کے بعد سب سے زیادہ اور سب سے بڑا حق اسکے رسول حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ۔

پہلا حق ایمان لانا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں سب سے پہلا اور اہم ترین حق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جائے کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کا لازمی تقاضا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا کہ:یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْہُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ(الانفال)اے ایمان والو! اللہ اور اْس کے رسْول کی اطاعت کرو اور حکم سْننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔

اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ جو کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گا، وہی اللہ کا فرمانبردار ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے وہ درحقیقت اللہ کا نافرمان ہے ۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اسی بات کا حکم دیتے ہیں جس کا اللہ حکم دے اور اسی بات سے منع کرتے ہیں جس سے اللہ منع کرے ۔

مَّنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّہَ وَمَن تَوَلَّی فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظاً(النساء )جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا۔اور فرمایا:وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا وَاتَّقُوا اللَّہَ اِنَّ اللَّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(الحشر) جو کچھ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جائو اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔
آپۖ کے فرمانبرداری کے فوئد وثمرات:اس فرمانبرداری سے اللہ تعالیٰ جو فوائد اور ثمرات عطا کرتا ہے وہ بیان سے باہر ہیں اور شمار میں نہیں آسکتے ۔
پہلا فائدہ:ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہی فرمانبرداری صراط مستقیم پر گامزن کرتی اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرتی ہے ۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے :قُلْ أَطِیعُوا اللَّہَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ فَاِن تَوَلَّوا فَاِنَّمَا عَلَیہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُم مَّا حُمِّلْتُمْ وَاِن تُطِیْعُوہُ تَہْتَدُوا وَمَا عَلَی الرَّسُولِ اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ (النور: ٤٥)اللہ کے مطیع بنو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع فرمان بن کر رہو لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اْس کا ذمہ دار وہ ہے اور تم پر جس فرض کا بار ڈالا گیا ہے اْس کے ذمہ دار تم ہو اْس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پائو گے ورنہ رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ صاف صاف حکم پہنچا دے ۔
دوسرافائدہ:اسی طرح اس کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری سے آدمی پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے ۔
أَطِیْعُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ(آل عمران)اللہ اور رسول کا حکم مان لو، توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔

Benefits

Benefits

تیسرافائدہ: اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ جنت کا داخلہ نصیب کرتا ہے جن پر انعام کیا گیا ہے جن میں سب سے پہلے انبیاء ہیں پھر دوسرے درجے پر وہ صِدِّیق ہیں جو صدق میں اور اللہ کے دین، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کی تصدیق میں درجۂ انتہا پر فائز ہیں اور انبیاء کے پیروکاروں میں سے افضل ترین لوگ ہیں، اس کے بعد شہداء کا درجہ ہے اور پھر وہ مومن جن کا ظاہر اور باطن پاک ہے ۔
وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَائکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیہِم مِّنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَائکَ رَفِیقاً(النسائ)جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اورصالحین،کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔

یہی وجہ ہے کہ جہنم کی آگ میں جب کفار کے چہرے جھلسیں گے اور انہیں عذاب دیا جا رہا ہو گا تو وہ اس حسرت کا اظہار کریں گے کہ کاش! انہوں نے اللہ اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق یوں خبر دی ہے کہ:یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوہُہُمْ فِیْ النَّارِ یَقُولُونَ یَا لَیْتَنَا أَطَعْنَا اللَّہَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا(الاحزاب)جس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں گے اْس وقت وہ کہیں گے کہ کاش! ہم نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ہوتی۔
چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کی تمنا کریں گے لیکن ایسے وقت میں کہ جب اس تمنا کا کوئی فائدہ نہ ہو گا اور وقت بیت چکا ہو گا۔
آپ ۖ کی اطاعت کی حقیقت:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں چلا جائے ، آپ کی پیروی کی جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو اپنایا جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا جائے اور اسے لوگوں کے خیالات اور خوش فہمیوں پر مقدم رکھا جائے ۔ تمام امور کا فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کروایا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر پوری رضا مندی اپنائی جائے ۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے (ترجمہ)پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اْمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے ، اور پیروی اختیار کرو اْس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے ۔(الاعراف)

ایمان کی درستگی کے لئے شرط:اللہ تعالیٰ نے ایمان کی درستی کیلئے شرط مقرر کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور سر تسلیم خم کیا جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو خوشدلی اور رضا مندی سے مانا جائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر کوئی حرفِ اعتراض نہ اٹھایاجائے اور نہ ہی اس میں کسی شک یا تردد کا اظہار کیا جائے ۔
فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَینَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِی أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْماً(النسائ)نہیں، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تمہارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔
آپۖ کی فرمانبرداری کاسب سے بڑا فائدہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کا سب سے بڑا فائدہ اور سب سے میٹھا پھل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانبرداروں کو اللہ کی محبت ملتی ہے اور ان کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔

قُلْ اِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّہُ غَفُور رَّحِیْم(آل عمران)اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔
اس لئے اس ثمر کی حفاظت کا اور اس عمدہ و بہترین بدلے سے ہمیشہ بہرہ مند رہنے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہر اس چیز سے بچا جائے جو اس کے برعکس ہو یا جس سے اس میں کمی واقع ہو۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں بدعت سازی کرنا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو بدلنا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کوئی بھی کام کرنے والے کو وعید سنائی ہے کہ وہ دنیا میں فتنے ، کفر اور نفاق میں مبتلا ہو گا جبکہ آخرت میں اسے درد ناک عذاب دیا جائے گا۔
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیْبَہُمْ فِتْنَة أَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَاب أَلِیْم(النور)رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آ جائے ۔

Fear of God

Fear of God

عِرباض بن ساریہ کی حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میں تمہیں اللہ کے ڈر کی اور بات سن کر مان لینے کی نصیحت کرتا ہوں اگرچہ (تمہارا امیر)کوئی حبشی غلام ہو کیونکہ تم میں سے جو کوئی میرے بعد زندہ رہا، وہ بہت سا اختلاف دیکھے گا، اس لئے تم میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑ لینا، اسے مضبوطی سے تھام لینا اور اس سے چمٹے رہنا، اور نئے نئے امور سے بچنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔(احمد، ابودائود، امام ترمذی، ابن ماجہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح کیا کہ جس کسی نے دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا یا اپنی طرف سے کوئی ایسا طریقہ مقرر کیا جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا تو اس کا وہ کام غیر مقبول اور مردود ہے جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت کے مفہوم میں چار چیزیں داخل ہیں : ٭ آپ کی بتائی ہوئی خبروں کی تصدیق کرنا ۔

٭ جس چیز کا حکم دیں اسمیں آپ کی اطاعت کرنا ۔
٭جس چیز سے روک دیں اس سے رک جانا۔
٭ آپ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق اللہ کی عبادت کرنا ۔
دوسرا حق محبت : اللہ کے بندو! امت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی حق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یوں محبت کی جائے کہ والد، بیٹے اور تمام لوگوں کی محبت سے بڑھ کر ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اس کے بیٹے اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائوں۔‘‘

اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہیں سوائے میری جان کے ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’نہیں، اللہ کی قسم! (اس وقت تک بات نہیں بن سکتی)جب تک میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جائوں۔‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : تواب ایسے ہی ہے ، اللہ کی قسم! آپ مجھے میری جان سے بھی پیارے ہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ عمر! اب بات بنی ہے ۔‘‘

اس سچی محبت کا یہ عظیم ثواب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے اور اس کی ترغیب دلانا اور اس کی انتہاء تک پہنچنے کا شوق بیدار کرنا بھی ضروری ہے ۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ’’تو نے اس کیلئے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے کہا کہ میں نے اس کیلئے بہت زیادہ نماز، روزے اور صدقے کے ساتھ تیاری نہیں کی لیکن میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کرتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی اْسی کے ساتھ ہے جس کے ساتھ محبت کرے ۔‘‘

یہ یقینی بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچی محبت کرنے والے کی سچائی ظاہراً بھی دکھائی دیتی ہو ورنہ تو یہ خالی دعویٰ ہو گا جس کی کوئی دلیل نہ ہو گی۔
آپ ۖ کے ساتھ دعویٰ محبت کی علامات ونشانیاں:آپ کے ساتھ دعوی محبت میں مخلص ہونے کی کئی ایک علامات اور نشانیاں ہیں جن میں سے اہم ترین علامات یہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا، تنگی اور آسانی ، خوشی اور غمی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اپنانا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو اپنی خواہش پر مقدم رکھنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی نصرت کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا دفاع کرنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی حفاظت کرنا اور کثرت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے رہنا، کیونکہ جو شخص کسی چیز سے محبت کرتا ہے ، وہ کثرت سے اسے یاد کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملاقات کا بہت زیادہ مشتاق ہونا جیسے ایک محب اپنے محبوب سے ملنے اور ملاقات کرنے کا آرزو مند ہوتا ہے ۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچی محبت کی ایک بہت بڑی علامت کثرت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا ہے ۔ جو آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بار درود پڑھے ، اللہ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے ۔ جیسا کہ صحیح حدیث کی رو سے ثابت ہے ۔ بالخصوص ان مواقع پر جہاں درود پڑھنا مستحب ہے مثلاً دعا کے شروع اور آخر میں، اذان کے بعد، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت ، مسجد میں داخل ہوتے اور مسجد سے نکلتے وقت، جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات اور تشہد میں۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنتے ہوئے آپ کی تعظیم و توقیر ملحوظ رکھے ، نیز مصائب و آلام میں آپ کی جدائی کی مصیبت اور صدمہ یاد کر کے صبر و سکون کی ہمت حاصل کرے ۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی ایک علامت یہ ہے کہ اہل بیت کے ساتھ ، مہاجرین و انصار صحابہ کیساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے ساتھ محبت کی جائے جن کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہر اس چیز سے محبت کرتے تھے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کی حتی کہ مباح امور میں بھی جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بار دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برتن سے کدو تلاش کر کے تناول فرما رہے تھے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں ہمیشہ کدو پسند کرتا ہوں۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ گائے کے چمڑے سے بنے جوتے پہنتے اور زرد رنگ استعمال کرتے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرتے تھے ۔ (بخاری و مسلم)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی ایک علامت یہ ہے کہ اس شخص کو ناپسند کیا جائے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند کیا، اس کے ساتھ دشمنی کی جائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی کرے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کرے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں بدعت سازی کرے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی کسی چیز کو ناپسند کرے یا بوجھل سمجھے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے قرآن سے محبت کرنا، اس کی ہدایت پر چلنا، اس کی محکم بات پر عمل کرنا، اس کے متشابہات پر ایمان لانا، اس کی تلاوت کرنا اور اس پر غوروخوض کرنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی اہم علامات ہیں۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت کرنا، ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آنا، ان کی خیرخواہی کرنا، ان کی بھلائی کیلئے کوشاں رہنا اور انہیں پریشانی سے بچانا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی اہم علامات میں سے ہے ، جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ساتھ بڑے مہربان اور رحم دل تھے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُول مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیز عَلَیہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیص عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوف رَّحِیْم(التوبة)دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تمہی میں سے ہے ، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے ، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے ، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے ۔

تیسرا حق نبی اکرمۖ کا ادب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طے شدہ حق ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب میں جو باتیں شامل ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ بڑھا جائے اور کوئی کام اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم نہ دیں یا منع نہ کریں۔ اللہ کا فرمان ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیِ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَاتَّقُوا اللَّہَ اِنَّ اللَّہَ سَمِیْع عَلِیْم(الحجرات)اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ۔

یہ ایک ربانی حکم ہے جو قیامت تک باقی ہے اور اسے کوئی چیز منسوخ نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے آگے بڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی طرح ہے ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرنا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کا تقاضا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ بقول حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اس آدمی کے متعلق کیا گمان ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور شریعت کے مقابلے میں اپنی آراء اور خیالات کو ترجیح دے ۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دینا بھی دوسرے لوگوں کو آواز دینے کی مانند نہیں۔ جیسا کہ اللہ کافرمان ہے :
لَا تَجْعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاء بَعْضِکُم بَعْضاً(النور)مسلمانو، اپنے درمیان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی طرح نہ سمجھ بیٹھو۔

مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ آپ کو ایسے آواز دینا جیسے دوسروں کو آواز دی جاتی ہے ، درست نہیں۔ بلکہ یوں کہو کہ ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !

Muhammad SAW

Muhammad SAW

یا اس آیت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلانے کو دوسرے لوگوں کے بلانے کی طرح نہ سمجھو، کہ اگر جی میں آیا تو جواب دے دیا ورنہ چھوڑ دیا بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلائیں تو کسی بھی آدمی کیلئے کوئی گنجائش نہیں کہ وہ جواب نہ دے اور نہ ہی اس کیلئے یہ بات روا ہے کہ وہ اسے ماننے میں کوتاہی کرے ۔

اسی طرح یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب ہے کہ اہل ایمان جب نبی کریم کی معیت میں کسی اجتماعی معاملے میں مشغول ہوں مثلاً خطبہ سن رہے ہوں یا میدان جہاد میں ہوں یا سرحد پر ہتھیار بندہوں تو ان میں سے کسی کیلئے جائز نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لئے بغیر چلا جائے ۔
انَِّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَاِذَا کَانُوا مَعَہُ عَلَی أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ یَذْہَبُوا حَتَّی یَسْتَأْذِنُوہُ(النور)مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اْس کے رسول کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے موقع پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں تو اْس سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں۔
چوتھا حق نبی اکرم ۖ کی تعظیم وتوقیر:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر بھی آپ کے حقوق میں داخل ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :اِنَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاہداً وَمُبَشِّراً وَنَذِیراً (8) لِتُؤْمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہ وَتُعَزِّرُوہُ وَتُوَقِّرُوہُ وَتُسَبِّحُوہُ بُکْرَةً وَاَصِیلاً (9)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر بھی آپ کے حقوق میں داخل ہے کہ : ٭ آپ کے فرمان و حدیث کی تعظیم کی جائے ۔
٭ آپ کی مسجد کی تعظیم کی جائے ۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں اور شخصیات کا حکم دیا ہے انکی تعظیم کی جائے ۔

پانچواں حق آپ ۖ کے قول پر شک کا اظہار نہ کرنا:اس طرح یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کا تقاضا ہے کہ دوسروں کی آراء و خیالات کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول پر کسی شک کا اظہار نہ کیا جائے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی بنیاد پر دوسروں کے خیالات کو مشکوک سمجھا جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو قیاس اور اس جیسی دیگر چیزوں کے ساتھ رد نہ کیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی کسی بھی چیز کے قبول کرنے کو اس بات پر منحصر نہ سمجھا جائے کہ کوئی دوسرا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت کرے ۔ یہ سب کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب میں کوتاہی کا سبب ہیں اور بہت بڑی جسارت ہیں۔

اس لئے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو، امت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کی معرفت حاصل کرو اور ان پر تدبر کرو تاکہ تم انہیں اس انداز سے نبھا سکو کہ جس سے تمہارا پروردگار راضی ہو، تمہیں اس کی محبت ملے ، تمہارے گناہ معاف ہوں اور اس کی جنتوں میں داخلہ تمہارا مقدر بنے ۔
چھٹا حق آپ ۖ کی دفاع اور مدد کرنا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم حق یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے جان و مال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور آپ کی طرف سے دفاع کرے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع میں درج ذیل امور داخل ہیں : ٭ آپ کی تعلیمات اور سنت کی طرف سے دفاع ۔

٭ آپ کی ازواج مطہرات کی طرف سے دفاع ۔
٭ آپ کے صحابہ کرام کی طرف سے دفاع ۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما۔ دائرۂ دین کی حفاظت فرما، دین کے دشمنوں کو اور تمام سرکش و مفسِد لوگوں کو تباہ فرما۔ مسلمانوں کے دلوںمیں الفت ڈال دے ۔ ان کی صفوں میں اتحاد پیدا فرما۔ ان کی قیادت کی اصلاح فرما اور اے رب العالمین! انہیں حق پر جمع فرما دے ۔ آمین یا رب العالمین۔

Rizwaniullah Peshawari

Rizwaniullah Peshawari

تحریر: مولانا رضوان اللہ پشاوری
0313-5920580
rizwan.peshawarii@gmail.com