امریکا ساس پاکستان داماد

Najeem Shah

Najeem Shah

ہیلری کلنٹن اپنا پاکستان کا  دورہ مکمل کرنے کے بعد روانہ ہو گئی ہیں۔ وہ ڈومور کے مطالبے سے آئی تھیں اور امریکا کے لئے ”پاکستان کی ساس ”کا خطاب پا کر چلی گئیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان میں مصروف وقت گزارا۔ اپنے دورہ کے دوران اُنہوں نے جہاں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں وہاں اسلام آباد میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران سول سوسائٹی، طلباء اور تاجروں سے گفتگو کے دوران اُن کے تنز و تیز سوالات کا سامنا بھی کیا۔ سوال و جواب کی اس نشست کے دوران محفل اس وقت کشت زعفران بن گئی جب ایک خاتون کی طرف سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو ساس بہو کے تعلقات سے مماثلت دی گئی۔ ہیلری کلنٹن نے اس سوال پر پہلے زوردار قہقہہ لگایا اور پھر کہا کہ اُنہیں اس رشتے کی نزاکت کا بخوبی اندازہ ہے۔ ہیلری کی حاضر دماغی کے تو سبھی معترف ہیں یہاں بھی وہ دلچسپ تنقید سے نہ صرف محظوظ ہوئیں بلکہ نہایت حاضر دماغی سے اس کا جواب دیا کہ ساس ہمیشہ ساس ہوتی ہے لیکن شاید ساسوں کو بھی نئے طور طریقے سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ساس بہو کے تعلقات بڑے ہی مشکل ہوتے ہیں۔ ان تعلقات کا اندازہ کسی بھی ساس بہو کے درمیان ہونے والے مکالمے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ یہ پل میں لڑتی ہیں اور پل میں مان جاتی ہیں ۔ پاکستانی خاتون نے ہیلری کلنٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امریکی اتحادی ہونے کے باعث مصیبت میں پھنسا ہوا ہے لیکن اسکے باوجود امریکا اُس ساس کی مانند ہے جو کبھی پاکستان سے مطمئن نہیں ہوتی اور ہر مرتبہ نیا مطالبہ پیش کر دیتی ہے۔ سوال مشرقی ساس بہو کے تعلقات سے متاثر ہو کر کیا گیا تھا لیکن جواب مغربی ساس بہو کے تعلقات سے متاثر ہو کر دیا گیا۔ ہیلری نے سوال کا جواب تو اپنے انداز میں دے دیا لیکن جس طرح اس سوال پر زوردار قہقہہ لگایا اس سے لگتا ہے کہ وہ مشرقی ساس بہو کے تعلقات سے بھی بخوبی واقفیت رکھتی ہیں۔ یہ سوال چونکہ ایک خاتون کی طرف سے کیا گیا تھا اور جواب دینے والی بھی خاتون تھی اس لیئے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو ساس بہو کے تعلقات سے تشبیہہ دی گئی ورنہ اگر کوئی مرد اس طرح کا سوال کرتا تو پھر یہ ساس بہو کے بجائے ساس اور داماد کا رشتہ بن جاتا۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان یہ رشتہ ساس بہو کی بجائے ساس داماد کا ہونا چاہئے۔ یہ داماد گیری کیا چیز ہے، ہم میں سے بہت سے لوگ اچھی طرح جانتے اور پہچانتے ہیں بلکہ بہت سے اچھے اچھے لوگ اس وباء کا شکار ہیں۔ اس وقت امریکا ایک ساس کی مانند ہے جبکہ پاکستان، ہندوستان اور افغانستان اس کے داماد ہیں۔ افغان داماد نے سسرال میںجا کر توڑ پھوڑ کی تو امریکی ساس نے اسے مزہ چکھانے کیلئے پاکستانی داماد کا سہارا لیا ۔ایک طرف ساس دونوں ہم زلفوں کو آپس میں لڑاتی رہی جبکہ دوسری طرف پاکستانی داماد کو کمزور کرنے کی سازشیں بھی کرتی رہی ۔ جب پاکستانی داماد نے یہ محسوس کیا کہ ساس خرچہ بھی نہیں دیتی اور اُس کے گھر میں آگ بھی لگا رکھی ہے تو اس نے مزید تعاون کرنے سے انکار کر دیا جس کے جواب میں ساس نے نہ صرف اِس داماد کو دھمکانہ شروع کر دیا بلکہ متبادل کے طور پر ہندوستانی داماد سے تعلقات کی پینگیں بڑھانا بھی شروع کر دیں۔ اس طرح چالاک ساس اپنے تینوں دامادوں کو ایک دوسرے کیخلاف کھڑا کرکے خود تماشہ دیکھ رہی ہے۔ ایک طرف اس نے خفیہ طور پر اپنے تینوں دامادوں میں اختلافات کو ہَوا دے رکھی ہے جبکہ دوسری طرف ان سے مختلف مطالبات کرکے یہ جاننے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ تینوں میں سے کون اس کا زیادہ وفادار ثابت ہو سکتا ہے۔ چالاک اور شاطر امریکی ساس نے اپنے تمام دامادوں کو وفاداری کی آزمائش میں تو ڈال دیا ہے لیکن کہیں معاملہ اسکے اُلٹ نہ ہو جائے۔ ایک ساس نے اپنے تین دامادوں کی وفاداری آزمانے کیلئے اُن کے سامنے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ ایک داماد نے اُسے بچا لیا تو ساس کی طرف سے اُسے انعام میں کار مل گئی۔ اگلے دن پھر یہی ڈرامہ کیا تو دوسرے داماد نے بھی اُسے بچا لیا جسے انعام میں موٹر سائیکل دی گئی۔ اگلے دن اُس نے پھر دریا میں چھلانگ لگا دی۔ تیسرے داماد نے سوچا کہ میرے لیئے تو صرف سائیکل ہی رہ گئی ہے کیا ضرورت ہے بچانے کی، یوں ساس ڈوب گئی تو اگلے دن اُس داماد کو سسر کی طرف سے مرسیڈیز مل گئی۔ امریکا کے اندر گھریلو معاملات میں عورت کی حکمرانی چلتی ہے جبکہ ایشیاء میں مرد کی حکمرانی ہوتی ہے۔ امریکی ساس کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس وقت سسر (چین) اُس کے مقابلے میں مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اس وفاداری کی کشمکش میں ساس اپنی طاقت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سسر کی حکمرانی شروع ہو جائے۔ اس لیئے ساس صاحبہ کو دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کے بجائے اپنے گھر کی فکر کرنی چاہئے۔ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی ساس صاحبہ ہیلری کلنٹن داماد کے گھر ڈور مور کا مطالبہ لے کر تشریف لائیں۔ داماد کے ہاں مصروف وقت گزارا اور اُس کے بچوں کو قصے کہانیاں بھی سُناتی رہیں لیکن بچے باپ سے بھی زیادہ ہوشیار نکلے۔ نواسے نواسیوں کو یہ شک تھا کہ نانی صاحبہ بظاہر تو اپنے داماد کی تعریفوں کے پُل باندھ رہی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ اُسے راہ راست پر لانے کے لیئے زہر کا ٹیکہ بھی پاس رکھتی ہیں اس لیئے اُنہوں نے نانی صاحبہ سے خاصے چبھتے ہوئے سوالات پوچھے یا پھر بعض متنازعہ امور پر داماد کے بارے میں ساس کے نکتہ نظر پر تنقید کی گئی۔ بچوں کے ان تنقیدی سوالات کو ہیلری کلنٹن فوری بھانپ گئیں اور نہایت حاضر دماغی سے پینترا بدل کر بولیں کہ ”میں نے ہمیشہ پاکستان کی ایک اچھی اور دیانتدار دوست بننے کی کوشش کی ہے ۔ ضروری نہیں کہ میں جو کہتی ہوں اُس سے اتفاق بھی کریں لیکن اس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ہے کہ ہم دونوں ایک ہی راستے پر چلتے رہیں۔ ” ساس اور بہو کا جھگڑا بھی عجیب ہوتا ہے۔ اگر دونوں ملک ”ساس بہو ”کے رشتے پر ہی قائم رہے تو پھر دونوں کے تعلقات بھی اس لطیفے کی مانند ہوں گے۔ ”بھکاری نے ایک گھر کے سامنے صدا لگائی تو گھر کی نئی نویلی دلہن نے کہا۔۔۔”جائو معاف کرو”۔۔۔بھکاری کچھ دور گیا تو دلہن کی ساس نے بھکاری کو آواز دی، بھکاری خوشی خوشی دوڑتا آیا تو خاتون نے بھی کہا ۔۔۔ ”بابا معاف کرو”۔۔۔ بھکاری کو بہت غصہ آیا اور اس نے کہا ”یہ بات تو آپ کی بہو نے بھی کہہ دی تھی، پھر مجھے واپس کیوں بلایا؟” اس پر خاتون نے جواب دیا۔۔۔ ”مالکن میں ہوں، وہ کون ہوتی ہے تم پر رعب جمانے والی۔’
تحریر: نجیم شاہ