اگر کچھ رابطہ باہر سے بنتا جا رہا ہے

empty grave

empty grave

اگر کچھ رابطہ باہر سے بنتا جا رہا ہے
خلا اندر کا بھی تو اور بڑھتا جا رہا ہے

نہ جانے کس جگہ جا کر رکے گا سلسلہ یہ
بہت سے ‘آنگنوں’ میں صحن بٹتا جا رہا ہے

ہمارے پاس گھر بھی ہے اور اسکے سب مکیں بھی
مگر ۔۔۔جیون۔۔۔۔کہ راہوں پر ہی کٹتا جا رہا ہے

اسی مٹی میں آخر ایک دن یہ دفن ہو گا
اسی مٹی سے اس تن کو بچایا جا رہا ہے

نہ جانے کس جگہ پر مجھ کو شہزادی ملیگی
ابھی تک تو بلائوں سے ہی پالا جا رہا ہے

علی اس جسم کے مضبوط گھر کو کیا کروں میں ؟
اگر یہ جسم بنیادوں سے گرتا جا رہا ہے

محمد علی خان