بدقسمت بھوجا ائیر لائن،127 زندگیوں کی ڈور ٹوٹ گئی

Plane Crash

Plane Crash

آہ بھوجا ائیر لائن کاوہ بدقسمت 27سال 4ماہ پرانا بی فور213بوئنگ 737مسافر طیارہ جس میں 11بچوں،67خواتین ،57مرداور6عملے کے افراد سمیت 127مسافر سوارتھے اِس بدقسمت طیارے نے 20 اپریل 2012کو کراچی انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے شام 5بجے اپنی منزل اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے لئے بخیروعافیت اپنی پروا ز بڑھی جس سے متعلق یہ کہاجارہاہے کہ یہ اِس طیارے کی کراچی سے اسلام آباد کی پہلی افتتاحی پرواز تھی جو بدقسمتی سے آخری ثابت ہوئی یہ بدقسمت طیارہ اپنی منزل بینظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے قریب تھانہ کورال چوک کی حددود میں پہنچنے سے قبل ہی خراب موسم،گرج چمک اور بادوباراں کے دوران لینڈنگ کرنے سے پہلے ہی شام 6بجکر40منٹ پر گر کر تباہ ہو گیاجس کے نتیجے میں جہاز میں سوار 127افراد کی زندگی کی ڈورٹوٹ گئی اور اِس جہاز میں سوار سارے کے مسافر موت کی آغوش میں جاسوئے اِس قومی سانحہ کی خبر ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جس کے بعد ساراملک سوگوار ہو گیا۔

ہمارے ملک میں دوبرسوں کے دوران نجی ائیرلائنز کا یہ دوسرابڑاحادثہ ہے اِس سے قبل 28جولائی2010کو بھی اسلام آباد کے اِسی ائیر پورٹ پر لینڈنگ سے قبل نجی ائیر لائین ائیربلوکے طیارے کو بھی ایساہی حادثہ پیش آیاتھا جس میں167افراد سوار تھے جن میں سے بدقسمتی سے کوئی بھی نہ نچ سکاتھا ہماری ملکی ہوابازی کے حوالے سے ہماری سرزمین پر پیش آنے والایہ34واں فضائی حادثہ ہے جس کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ مجموعی طورپر اِن حادثات میں 685کے لگ بھگ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جمعہ کی شام پیش آنے والے اِس المناک فضائی حادثے نے ساری پاکستانی قوم کو افسردہ کر دیا ہے اور سب کے لبوں پر اِس حادثے میں شہید ہونے والوں کے لئے مغفرت کی دعائیں ہیں۔ اظلاعات ہیں کہ حادثے کا شکار ہونے والے بھوجا ائیر لائن کے بدقسمت طیارے بوئنگ 737کا بلیک بکس امدادی ٹیموں کو مل گیا ہے جس میں محفوظ معلومات کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ طیارے کی حادثے کی کیا وجوہات تھیں جبکہ حادثے کے مقام حسین آباد گاؤں کے رہائشی عین شاہدین کے مطابق اِن کا یہ کہنا ہے کہ موسم خراب تھا اور گرج چمک کے ساتھ تیز بارش لگی ہوئی تھی اِنہوں نے آسمان سے ایک آگ کے گولے کو نیچے گرتے دیکھایہ سمجھے کہ آسمانی بجلی گری ہے اور پھر کچھ ہی دیر بعد ایک زوردار دھماکہ ہوایہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ جائے حادثے پر پہنچے تو ہر طرف جہاز کا ملبہ اور انسانی اعضاکے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے اِن کا کہنا ہے کہ اِنہوں نے فوراً امدادی ٹیموں کو فون کیا اور وہ جائے حادثے پر پہنچ گئیں۔

اگر چہ آج 21اپریل ہے اوراِن سطور کے رقم کرنے تک یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ لو احقین کو کراچی سے اسلام آباد لے کر لانے والا خصوصی طیارہ بھی اسلام آباد پہنچ گیاہے اور جائے حادثہ پر امدادی ٹیمیں اپنا فریضہ انتہائی تن دہی سے انجام دے رہی ہیں 127افراد کی تلاشیں جہاز کے ایک سے ڈیڑھ کلو میٹردور تک پھیلے ہوئے ملبے سے نکل لی گئیں ہیں جو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں ملی ہیں جنہیں ریسکیو ٹیمیں قریبی اسپتالوں اور سرد خانوں میں پہنچا رہی ہیں اور جن سے متعلق اطلاعات یہ ہیں کہ 102لاشیں ایسی ہیں جن کی شناخت ہو گئی ہیں اور اِن کے لواحقین نے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ تمام ضروری قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد وصول کر لیں ہیں۔

یہاں ہم ایک بات یہ کہنا چاہیں گے جس نے ہمیں یہ لکھنے والے کہنے پر مجبور کیا وہ یہ ہے کہ اکثر ایسے مواقع پر یہ کثرت سے دیکھنے میں آیا ہے کہ ہماری قوم کا ایک ایک فرد جو خالصتاً انسانی ہمدردی کے تحت زخمیوں کی مدد کرنے اور ایسے واقعات میں شہادت کا رتبہ پانے والے افراد کی ڈیتھ باڈیز کو بصد احترام اسپتالوں اور سردخانوں تک پہنچانے کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے بیتاب رہتا ہے یہ ہماری قوم کا وہ عظیم جذبہ ہے جو نہ صرف قابلِ احترام ہے بلکہ قابلِ تحسین بھی ہے جس کے لئے ہماری قوم قابلِ تعریف ہے۔ مگر ایسے مواقع پر جائے حادثے پر پہنچنے والے ہماری قوم کے ہر فردکو یہ بھی ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ یہ اپنی موجودگی کی وجہ سے امداد ٹیمیوں کے اراکین کے کاموں میں رکاوٹ بھی نہ بنیں اور ایسے موقعوںپر اِن کی کوشش یہ ہی ہونی چاہئے کہ جب امدادی ٹیمیں جائے حادثہ پہ پہنچ کر متحرک ہو جائیں تو یہ ریسکیو ٹیموں کے اراکین کو زیادہ سے زیادہ موقع دیںجو اِن سے زیادہ بہتر طریقے سے زخمیوں اور مرنے والوں کی باڈیز کو اِن کے ٹھیک مقامات تک جلد از جلد پہنچا سکتے ہیں ۔ہمارا اپنی قوم کو ایک یہ بھی مشورہ ہے کہ جب امدادی ٹیموں کے اراکین کسی بھی جائے حادثے پر پہنچ جائیں اور اپنا کام خندہ پیشانی سے انجام دنیا شروع کر دیں تو پھر ہمیں چاہئے کہ اِن کے کاموں میں رخنہ ڈالنے کے بجائے خود کو جائے حادثے سے دور کر لیں جو کسی بھی تہذیب یافتہ قوم کے مہذب ہونے کی دلیل ہے۔

اِس ساری صورتِ حال کے بعد ہم اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں اور فضائی شعبے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے والے کرتادھرتاوں سے یہ اپیل ضرورکریں گے کہ خدارا ہوا بازی کے شعبے کو حادثات سے محفوظ بنانے کے لئے سنجیدگی سے جدید سائنسی خطوط پر اقدامات کئے جائیں اور اِس شعبے کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایاجائے گزشتہ کئی سالوں سے اپنے یہاں فضائی حادثات کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد ہمیں اپنا فضائی سفر کا شعبہ بھی اپنے ٹریفک نظام کی طرح لگنے لگا ہے جہاں غیر تربیت یافتہ ڈرائیورآئے روز گاڑیوں کو حادثات کا شکار بنا کر اپنے مسافروں اور پیدل چلنے والوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں اورخود بچ نکلتے ہیں کہیں ہمارا ہوا بازی کا شعبہ بھی تو ایسے غیر ذمہ دار پائلٹوں سے بھرتو نہیں گیاہے جن کی ذراسی لاپرواہی اور غفلت بھوجا اور بلو ائیر لائینز جیسے حادثات کی وجہ بن کر سیکڑوں انسانوں کو موت کی نیند سلا رہی ہے بھوجا ائیر لائین کو پیش آنے والے حادثے کی صاف وشفاف تحقیقات کی جائے اور قوم کو بتایا جائے کہ اصل وجہ کیا تھی تاکہ قوم کا فضائی سفر پر اعتماد بحال ہو۔

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم