برداشت

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

ٹک ٹک دروازے پہ دستک ہوئی میں نے اپنے بھتیجے سمیر اشفاق سے کہا بیٹا دیکھو باہر کون ہے ۔وہ گیا اور قدرے دیر سے واپس آیا اور کہنے لگا چاچوباہر ایک آدمی آیا ہے وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے ۔میں نے اسے ڈانتے ہوئے کہا آدمی کا کیا مطلب اس کا کوئی نام نہیں ہے۔تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے کہ جب کوئی ملنے آئے تواس کا نام پوچھا کروپتا نہیں کب عقل آئے گی تجھے۔سمیر کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا جائو اپنا کام کرومیں خود دیکھ لوں گااب ۔وہ منہ لٹکائے اپنے کمرے کی طرف چل دیا اور میں غصے کے عالم میں گیٹ کی طرف بڑ گیا۔گیٹ کے باہر کا منظر دیکھ کر میرا غصہ جاتا رہا۔باہر سفید کپڑوں میں ملبوس انتہائی خوبصورت شخص کھڑا مجھے دیکھ کر مسکرا رہا تھا،وہ میرے لیے اجنبی تھا میں نے پہلے کبھی اسے نہیں دیکھا تھا،اس کی رنگت گلابی اور جسم شفاف شیشے کی ماند تھا، اس کے بات کرنے کے انداز سے محسوس ہورہا تھاکہ اس کی زبان اردونہیں ہے لیکن وہ میرے ساتھ اردومیں بات کررہاتھا۔وہ مجھے سلام کہہ رہا تھا لیکن میں اس کے حسن کے سحر میں ڈوبا حیرت وحسرت کا مجسمہ بنا اسے دیکھ رہاتھا،اس کے حسن کو لفظوں میں بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں ،وہ جب بولتا تو اس کے گلے کے اندر سے گزرتی ہوئی سانس تک نظر آرہی تھی باکل ایسے جیسے پانی میں لہریں بنتی ہیں ۔میں سوچ رہا تھا کہ وہ اس جہان کی مخلوق نہیں ہوسکتا ضرور کسی اور دنیا سے آیاہوگا۔میں اپنی سوچوں میں ایسا گم ہوا کہ اس کے سلام کا جواب تک نہ دے پایا ۔جانے کب تک میںحیرت وحسرت کی تصویربنا رہتااگر وہ مجھے کندھے سے پکڑ کر نہ ہلا تا۔

مجھے ہوش میں آتے ہی شرمندگی کا احساس ہوا اور میں نے ادھر اُدھر دیکھا کہ کہیں کوئی ہمیں دیکھ تو نہیں رہا خوش قسمتی سے گلی میں اس وقت اورکوئی نہیںتھاہم دونوں کے سوا ۔میں نے اپنا احساس شرمندگی چھپاتے ہوئے اسے کہا آپ اندر آئیں بیٹھ کربات کرتے ہیں ۔اس نے کہا نہیں میں بیٹھنے نہیں آیامجھے آپ کے ساتھ کچھ باتیں کرنی تھی ۔لیکن پہلے میں آپ کو یہ بتا دوں کہ جس بچے کو آپ نے میرا نام نہ پوچھنے کی وجہ سے ڈانٹااس نے مجھ سے نام پوچھنے کی بہت کوشش کی لیکن میں نے اسے اپنا نام نہیں بتایااورآپ سے ملنے کی ضد کی کرتے ہوئے اسے آپ کوباہر بھیجنے کوکہاتھااس لیے اس کی کوئی غلطی نہیں ،بچہ یہ بات آپ کو بتانا چاہتا تھا لیکن آپ نے اس کی ایک نہیں سنی ۔اس شخص کی بات سن کرمیں پھر سے حیرت کی تصویر بن گیا۔میں سوچنے لگا گیٹ اور بالکونی کے درمیان خاصا فاصلہ بنتا ہے اس شخص نے اتنی دور سے میری باتیں بھی سن لیں اوراس کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ سمیر مجھ سے کچھ کہا چاہتا تھاحالانکہ سمیر تو بولا بھی نہیں تھا۔اس سے پہلے کے میں اپنے ہوش کھوبیٹھتا ،میں نیء فوراً اسے پوچھا جناب آپ کون ہیں اور مجھ سے کیا کام ہے آپکو؟وہ کہنے لگا میں اکثرآپ کی تحریریں پڑھتا ہوں۔

مجھے لگا آپ وہی بات لکھتے ہیں جوآپ کا دل کہتا ہے ۔اس لیے میں آپ سے ملنے چلا آیا سوچا اپنے دل کی باتیں آپ کوسنوادوں شائد کسی پر اثرہوجائے ،لیکن آپ کی بچے کے ساتھ سخت گفتگوسن کر پتا چلا کہ آپ بھی دوسروں کی طرح کسی کوبولنے کاموقع نہیں دیتے اس لیے میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا،میرا نام انصاف ہے اور میں قبرستان میں رہتا ہوں ۔میں نے سوال کیا آپ مرچکے ہیں؟اس نے جواب دیانہیں میں مر نہیں سکتا لیکن جس معاشرے میں مجھے صرف امیروں کے نام کردیا جائے اس میں رہنامیرے لیے ممکن نہیں رہتا ،میں اس معاشرے میں رہنا پسند کرتا ہوں جس میں میر ااستعمال بلاامتیاز کیا جائے ،آپ اپنی تحریروں میں اکثر میرا(یعنی انصاف کا)ذکر اچھے الفاظ میں کرتے ہیں ۔ویسے تو اور بھی لوگ مجھے بڑے اچھے الفاط میں یاد کرتے ہیں لیکن ملاقات کا ٹائم کوئی نہیں دیتا ،یہاں تک کہ آپ کی طرح دروازے پر آکربھی کوئی وقت نہیں دیتا۔میں نے کہا آپ انصاف ہوآپ کومعاشرے میں عام ہونا چاہئے لیکن آپ قبرستان میں رہتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟(انصاف)نے جواب دیا میں اس وقت عام نہیں رہتا جب مجھے خاص طبقے کاغلام بنانے کی کوشش کی ۔جب جرائم اس حد تک بڑجائیں کہ معاشرے میں غریب آدمی کا جینا مشکل ہوجاے اور اس تک میری (انصاف کی)فراہمی ممکن نہ رہے،جس معاشرے میں عادل جانبدارا نہ فیصلے کریں اور میری خریدوفروخت ہونے لگے ۔ایسے معاشرے میں میرے لیے اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہوجاتا۔اورجب میں (انصاف)لاکھ کوشش کرنے پر بھی مظلوم تک نہیں پہنچ پاتاتواس سے پہلے کہ مجھے قید کرکے کال کوٹھڑی میں ڈال دیاجائے میں ایسے معاشرے کو خیرباد کہہ کر قبرستان میںڈیرے ڈال لیتا ہوں۔

میں نے ایک اور سوال کیا آپ کوواپس لانے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟ اس نے جواب دیابڑی سادا سی بات ہے میرا وجود مالک کائنات ہر خاص وعام کے لیے بنایا ہے۔اس لیے اگر کوئی مجھے واپس لانا چاہتا ہے تو غریبوںاور مظلوموں تک میری فراہمی آسان کرئے ۔اس سے پہلے کہ میں کوئی اور سوال کرتا اس (انصاف)نے قدرے دکھ بھرے لہجے میں کہاجس معاشرے میں برداشت کا مادہ ختم ہوجائے اس میں میری واپسی ناممکن ہے ۔وہ کہنے لگا آپ اور آپکے علاوہ بھی بہت سے لکھنے والے اپنی تحریروں کے ذریعے ہزاروں لوگوں سے بات کرتے ہیں ،جن میں میرا ذکربڑے اچھے الفاظ میں کرتے ہیں لیکن سب فضول ہے ۔میں نے حیرانگی سے اس کے خوبصورت چہرے کی طرف دیکھا،اس کی آنکھوں میں نمی تھی اور وہ مجھے حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا،میں ابھی سوچ رہاتھا کہ اسے دلاسادینے کے لیے کن لفظوں کا استعمال کروں کہ اس نے آگے بڑکر بڑی محبت سے میراہاتھ تھاما اور کہنے لگا اگر آپ لوگ واقع ہی مجھے پسند کرتے ہوتواپنے اندر برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کریں۔وہ بول رہا تھا اوراس کا جسم کانپ رہا تھا،میں نے اسے کھینچ کرگلے لگانے کی کوشش کی لیکن وہ ایک جھٹکے سے اپنا دامن چھڑا کربولا ابھی اس کا وقت نہیں آیااور تیزتیز قدموں سے چلتا ہوا میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔میں اُسے زور،زور سے پکار رہا تھا،انصاف صاحب بات سنیں ،انصاف بھائی رکیں تو،میں اس کے پیچھے جانے ہی والا تھا کہ ماں جی نے میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر زور سے ہلایااور پوچھاامتیازکس کو پکار رہے ہو ؟کیا ہوا بیٹا؟میں نے آنکھیں کھول کردیکھا ماں جی میرے پاس تھی اور میں گلی کی بجائے اپنے بستر پر تھا۔

میری حالت غیر تھی اور میں بری طرح ہانپ رہا تھا،مجھے لگا جیسے میں صدیوں سے بھاگ رہاہوں ۔خیرخواب ٹوٹ چکا تھا اور وہ (انصاف)جاچکا تھا ۔انصاف سے میری ملاقات تھی توایک خواب لیکن میں آج بھی سوچتا ہوں کہ اگر میں ذرہ سی بات پر سمیر کو نہ ڈانٹتا تو میری انصاف سے ملاقات طویل ہوسکتی تھی ،شائد وہ اندر بھی آجاتا،شائد میرے ساتھ ایک کپ چائے پی لیتا۔سوچتا ہوں اگر میں نے چھوٹی سی بات برداشت کرلی ہوتی اور سمیر کونہ ڈانٹا ہوتا توانصاف میرے ساتھ اپنے دل کی تمام باتیں کرتا اور مجھے اس کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا۔انصاف سے ہونی والی ملاقات مجھے ادھوری لگتی ہے اس لیے اب میں ہرروز ہربات کوبرداشت کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور دل میں ملاقات کی تمنا لیے سوجاتا ہوں کہ شائد ناراض ہوکرجانے والا لوٹ آئے۔

تحریر: امتیازعلی شاکر: نائب صدر کالمسٹ کونسل آف پاکستانccp
imtiazali470@gmail.com.03154174470