بے چین بہاروں میں !

Qateel shifai

Qateel shifai

بے چین بہاروں میں کیا کیا ہے جان کی خوشبو آتی ہے
جو پھول مہکتا ہے اس سے طوفان کی خوشبو آتی ہے

کل رات دکھا کے خواب قریب سو سیج کو سونا چھوڑ گیا
ہر سلوٹ سے پھر آج اسی مہماں کی خوشبو آتی ہے

تلقین عبادت کی ہے مجھے یوں تیری مقدس آنکھوں نے
مندر کے دریچوں سے جیسے لبوں کی خوشبو آتی ہے

کچھ اور بھی سانس لینے پر مجبور سا میں ہو جاتا ہوں
جب اتنے بڑے جنگل میں کسی انسان کی خوشبو آتی ہے

کچھ تو ہی مجھے اب سمجھا دے اے کفر دھائی ہے تیری
کیوں شیخ کے دامن سے مجھ کو ایمان کی خوشبو آتی ہے

ڈرتا ہوں کہیں اس عالم میں جینے سے نہ منکر ہو جائوں
احباب کی باتوں سے مجھ کو احسان کی خوشبو آتی ہے

قتیل شفائی