تعلیمی میدان میں ٹی سی ایف قدم بہ قدم

imtiaz shakir

imtiaz shakir

دورحاضر میں کم آمدنی والے والدین کے لئے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جارہا ہے ۔موجودہ دورمیں جب کہ مہنگائی کاپہاڑ کے ۔ٹو پہاڑسے بھی بلند ہو چکا ہے ۔سرکاری وغیرسرکاری چھوٹے ملازمین کی تنخواہ زیادہ سے زیادہ آٹھ دس ہزار ہے۔یوں توغریب آدمی کے لئے آٹھ دس ہزاربھی بہت بڑی رقم ہے لیکن جب اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کے مطابق ضروریات زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس رقم کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ روز مرہ کی ضرورتوں کے لئے آٹھ دس ہزارآٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے ۔کیونکہ پانچ سے چھ ہزار بجلی اور گیس کے بل آجاتے ہیں ۔

باقی بچے پانچ سے چار ہزار ۔اب جس گھر میں دو بڑھے اور دو بچے ہوں تو اس گھرکو کم ازکم ایک کلودودھ کی ضرورت تو ضرور ہوتی ہے ۔لاہور میںایک کلودودھ کی قیمت 60روپے ہے اس حساب سے 1800روپے ماہانہ بنتے ہیں ۔اب آٹھ سے دس ہزار کمانے والے کے پاس بچیں گے باقی28سے18سوروپے ۔اتنے کم پیسوںمیں مہنے بھر کے لئے آٹا،دال،سبزی،گھی،نمک،مرچ،تیل وغیرہ وغیرہ ہی پورے نہیں ہوتے ان حالات میں جب کہ بیچارہ غریب آدمی اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال پاتا تو پھر اس کے بچے کو تعلیم کی سہولت کہا ںسے میسر آئے گی ۔ اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں معیاری تعلیم تو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے ہی لیکن عام آدمی کے عام بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لئے عام تعلیم کو بھی کاروبار بنا دیا گیا ہے ۔جہاں تک میں نے دیکھا اور دیکھنے کے بعدجتنا میں سمجھ پایا ہوں اس کے مطابق مجھے لگتا ہے ہم نے علم پھیلانے کے مشن کو ترک کردیاہے ۔یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوںکیونکہ آج کل شعبہ تعلیم سے وابستہ ادارے اور شخصیات کا مشن صرف دولت کمانا ہے۔

ابھی بھی دنیا میںکچھ ایسے ادارے اورکچھ ایسی شخصیات باقی ہیں جن کی نظر میں تعلیم کی اہمیت دولت سے زیادہ ہے ۔قارئین آج میں آپ کے ساتھ ایسے ہی ایک ادارے کاپیغام شیئرکرنے جا رہا ہوں ۔اس ادارے کا نام ہے (ٹی سی ایف)پیغام ہے کہ (ٹی سی ایف )اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی ایک امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں علم و ہنر کے ساتھ ساتھ بچوں کی کردار سازی پر بھی زور دیا جاتا ہے کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ تعلیم اور تربیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔تعلیمی معیار کو تمام اسکولوں میں یکساں بنیادوں پر جانچنے کے لئے مرکزی امتحانات کا نظام رائج کیا گیا ہے ۔چونکہ کسی بھی اسکول کی اچھی کارکردگی کا انحصار اس اسکول کے بچوں کی امتحان میں کار کردگی پر ہوتا ہے اس لئے بچوں کی اوسط فیصد نتیجہ اے پی آراسکول کی کار کردگی کو جانچنے کے لئے ایک اہم پیمانہ کے طور پر رکھا گیا ہے۔

اے پی آر کو پرنسپل کی کارکردگی کے ساتھ صرف اس لئے منسلک کیاگیا ہے تاکہ بچوں کی پڑھائی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائے ،ان کی کمزوریوں کی شناخت کی جائے اور ان کو دور کرنے کے لئے بروقت اور موثر اقدامات کئے جائیں اس لئے ہم اس بات پر زیادہ زور دینا چاہتے ہیں کہ بچوںکوسال کے شروع ہی سے صاف اور شفاف امتحان دینے کی عادت ڈالی جائے اورامتحانات کے دوران ان کا بھرپور طریقے سے معائنہ کرکے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کی کار کردگی حقیقت پر مبنی ہے تاکہ ان کی مسلسل ترقی کے لئے موثرحکمت عملی وضع کی جا سکے ۔مسلسل بہتری ہماری اقدار میں سے ہے اور ہمیںاپنی اقدار کو فروغ دینا ہے۔ٹی سی ایف کا کہنا ہے کہ معیاری تعلیم کے پانچ ستون ہیں ۔نمبر ایک ۔بنیادی مفہوم ۔نمبر دورابطے کا فن۔نمبر تین۔تخلیقی اور تنقیدی سوچ۔نمبر چار ۔خود اعتمادی ۔نمبر پانچ ۔بنیادی اقدار۔ان پانچ ستونوں اور ٹی سی ایف کا مکمل تعارف زندگی رہی تو پھر کبھی ضرور لکھوں گا ۔لیکن آج میں قارئین کو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں اس حوس اور لالچ کے دورمیں ٹی سی ایف فیس نہیں والدین کی توجہ مانگتا ہے ۔میرا بیٹا پچھلے دو سال سے ٹی سی ایف اسکول جھلکے سے وابستہ ہے ۔

میں نے دوسال پہلے بہت سے مہنگے ترین اسکولوں کے تعلیمی معیار جانچنے کے بعد ٹی سی ایف کا انتخاب کیا تھا اور مجھے اپنے انتخاب پر فخر ہے ۔ٹی سی ایف اسکول جھلکے کی پرنسپل میڈیم فردوس اور باقی تمام ٹیچر اس قدر مخلص اور محنتی ہیںکہ میرے جیسا کم ظرف اور کم علم شخص ان کی تعریف میں کچھ نہیں کہہ سکتا صرف اتنا کہوں گا کہ جس کو شک ہو وہ اسکول کا وزٹ ضرور کرے ۔ مجھے یقین ہے کہ جن بچوں کوٹی سی ایف اسکول جھلکے جیسے اساتذہ میسر ہوں اور والدین بھی بچوں کو توجہ دیں توپھر ان بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوئی کمی نہیں آسکتی ۔ والدین اور اساتذہ اکرام دوران تعلیم وتربیت بچوں کوتوجہ دیں تو بچوں کے لئے تعلیمی مشکلات میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔

سب سے پہلے دیکھنے کی بات یہ کہ کیا گھر کا ماحول تو ایسا نہیں جس کی وجہ سے بچے پریشان رہتے ہیں ۔کیا بچے والدین کے آپس میں غلط رویوں کی بھینٹ تو نہیں چڑھ رہے والدین کابلاوجہ ڈانٹ ڈپٹ ،مار پیٹ یا ضرورت سے زیادی سختی کی وجہ سے بچے خوف میں مبتلاتو نہیں ہورہے ۔اس طرح کے حالات میں بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے ۔اس طرح کے مسائل اکثر اساتذہ اور والدین کی سمجھ میں آتے اورالجھن اور زیادہ بڑھتی جاتی ہے ایسے میں والدین اور اساتذہ کوآپس میں رابطہ رکھنا چاہئے تاکہ مل جل کر بچوں کی مشکلات کو سمجھا اور دور کیاجاسکے ورنہ غلط ماحول اور خوف بچوں کی فطری صلاحیتوں کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں ۔اکثر دیکھنے میں آتا ہے بچہ کھیلتے وقت فریش رہتا ہے لیکن جب پڑھنے کا وقت ہوتا تو وہ سردرد اور تھکاوٹ کی شکایات کرتا ہے ۔اگر ایسا ہو تو اساتذہ اور والدین کوبچے کی جسمانی اور ذہنی نشوونماکا بغور جائزہ لینا چاہئے اور بچے کی مشکلات کو پیار سے حل کرنا چاہئے ۔ ناکہ بچے کی نیٹ پر شک کرکے مار پیٹ کرنی چاہیئے۔یہ بات طے ہے کہ ہر گھر میں ایک جیسی سہولتیں موجودنہیں ہوتیں ٹھیک اسی طرح ہرگھر کی مشکلات بھی مختلف ہوتیں ہیں ۔

غریب کے گھر میں دور جدید میں ایجادہونے والی مہنگی ترین چیزیں کم ہی ہوتی ہیں لیکن امیر آدمی کے گھر میں کچھ اشیاء بھی موجود ہوتی ہیں ۔جن کو استعمال بچے اگر حد سے زیادہ کریں تو بھی ان کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوسکتیں ہیں ۔ دور حاضر میں بچوں کو جدید ترین سہولتیں میسر ہیں جس کی وجہ سے اساتذہ اور والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے باعث بچوں کی توجہ تعلیم کی طرف سے ہٹ گئی ہے ۔ٹیلیویژن پروگرام ،ویڈیو گیم اورکمپیوٹرنے بچوں کی ساری توجہ اپنی طرف مبذول کرلی ہے ،یہ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن سوفیصد درست نہیں ہے کیونکہ ویڈیو گیم اورکمپیوٹرکی ایجادات سے پہلے بھی والدین کو بچوںکی تعلیم میں عدم دلچسپی کی شکایات رہتی تھی ہرطبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اور بچے مختلف انداز میں اپنی شکایات کا اظہار کرتے ہیں ۔بچوں اور والدین کی عمرمیں کم از کم بیس سے پچیس سال کا فرق ضرور ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچوں اور والدین کی دلچسپی اور وجہ کے مراکز بھی مختلف ہوتے ہیں۔

بچوں کے ساتھ ان کے والدین کا برتائو ،لاڈ،پیاریامارپیٹ اور سمجھانے کے انداز بھی مختلف ہوتے ہیں ۔اب دیکھنے کی بات یہ کہ بچوں کے ساتھ والدین کا برتائوتعلیمی معاملات میں آسانیا ںپیدا کررہا ہے یا مشکلات پیدا کررہا ہے۔اسی طرح اساتذہ کا طریقہ تدریس اور دوسرے عوامل بھی اس ضمن میں قابل غور ہیں ۔ہمیں یہ بھی ضرور دیکھنا لینا چاہئے کہ کیا بچوں کا رویہ کلاس روم میں اساتذہ کے لئے پریشان کن تو نہیں ہے اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ وہ کون سا رویہ یا مضمون ہے جس میںبچے کو مشکلات پیش آرہی ہیں ۔اور یہ بات بھی بہت زیادہ قابل غور ہے کہ مشکلات کی اصل وجوہات کیا ہیں۔تحریر : امتیازعلی شاکر