تمہاری یاد سے جب ہم گزرنے لگتے ہیں

Bekhudi

Bekhudi

تمہاری یاد سے جب ہم گزرنے لگتے ہیں
جو کوئی کام نہ ہو بس وہ کرنے لگتے ہیں

تمہارے آئینئہ ذات کے تصور میں
ہم اپنے آئینے آگے سنورنے لگتے ہیں

تمہارے کوچئہ جاں بخش کے قلندر بھی
عجیب لوگ ہیں ہر لمحہ مرنے لگتے ہیں

ہم اپنی حالتِ بے حالتی اذیت میں
نہ جانے کس کو کیسے یاد کرنے لگتے ہیں

بہت اُداس ہوں میں غم سدا نہیں رہتا
بہت اداس ہوں میں زخم بھرنے لگتے ہیں

انہیں میں تیری تمنا کا فن سکھاتا ہوں
جو لوگ تیری تمنا سے ڈرنے لگتے ہیں

یہاں میں ذکر نہیں کر رہا مکینوں کا
کبھی کبھی در و دیوار مرنے لگتے ہیں

جون ایلیا