تم نہ جانے اسکو بھی کیوں بے اثر لکھتے رہے

heart with sea

heart with sea

تم نہ جانے اسکو بھی کیوں بے اثر لکھتےرہے
ہم کہانی پیار کی جو عمر بھر لکھتے رہے

اپنے کاندھے پہ رکھے اغیار کی فکر و نظر
زندگی کی بھول کو اپنا سفر لکھتے رہے

بے ضمیری بے اصولی بیچ کر افکار میں
سیدھے لوگوں کے لیے اس کو ہنر لکھتے رہے

موسموں کا جبر بھی جن سے نہ رک پایا کبھی
کیا مکاں تھے جن کو ہم دیوار و در لکھتے رہے

وہ مسافر تھے انہیں درکار تھا سایہ فقط]
جو ہمارے ہر شجر کو بے ثمر لکھتے رہے

آگ برساتا رہا سورج ہمارے جسم پر
چاندنی کی داستاں پھر بھی قمر لکھتے رہے

سید ارشاد قمر