جرم انکار کی سزا ہی دے

khana kaba

khana kaba

جرم انکار کی سزا ہی دے
میرے حق میں بھی کچھ سنا ہی دے

شوق میں ہم نہیں زیادہ طلب
جو ترا ناز کم نگاہی دے

تو نے تاروں سے شب کی مانگ بھری
مجھ کو اک اشک صبحگاہی دے

تو نے بنجر زمیں کو پھول دیے
مجھ کو اک زخم دل کثاہی دے

بستیوں کو دیے ہیں تو نے چراغ
دشت دل کو بھی کوئی راہی دے

عمر بھر کی نوا گری کا صلہ
اے خدا کوئی ہم نوا ہی دے

زرد رو ہیں ورق خیالوں کے
اے شبِ ہجر کچھ سیاہی دے

گر مجال سخن نہیں ناصر
لب خاموش سے کواہی دے

ناصر کاظمی