جل چکے خواب تو پھر آگ بجھانے آیا

khwab jal chuke

khwab jal chuke

جل چکے خواب تو پھر آگ بجھانے آیا
اک نئے ڈھنگ سے وہ چوٹ لگانے آیا

موم کے پل سے گزر کر مجھے جانا تھا وہاں
اور سورج ہی مرا ساتھ نبھانے آیا

بالمقابل ہے خزاں، آئینہ خندہ زن ہے
شہر ماضی کو بھلا کون بسانے آیا

میرے پیروں تلے آنکھیں جو بچھاتا تھا کبھی
کانچ کی کرچیاں وہ راہ میں سجانے آیا

فاخرہ بتول