جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

jahan tera naqsh e qadam

jahan tera naqsh e qadam

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیابان ارم دیکھتے ہیں

دل آشفتگاں خال کنج دہن کے
سویدا میں سیر عدم دیکھتے ہیں

ترے سرو قامت سے اک قد آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

تماشا! کہ اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

سراغ تف نالہ لے داغ دل سے
کہ شبرو کا نقش قدم دیکھتے ہیں

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

غالب