حصول علم اور دھوکہ بازی

pakistani  eduucation

pakistani eduucation

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ” علم لازوال دولت ہے” مگر علم حاصل کرنے کیلئے دولت کہاں سے لائیں۔ ابن انشاء کو اللہ بخشے ” کیا باغ و بہار آدمی تھے” جن دنوں لاہور میں غیرت پر فلمیں بن رہی تھیں۔ غیرت میرے ویر دی، غیرت پنچ دریاواں دی، غیرت ہی غیرت، غیر شان جواناں دی، غیرتاں دا راکھا وغیرہ وغیرہ، تو انشاء جی نے کہا تھا ایک تو یہ فلم والے اس چیز کا ذکر بہت کرتے ہیں جو انکے پاس ہوتی ہی نہیں۔ یہی حال وطن عزیز کا ہے یہاں ریڈیو آن کریں یا ٹیلی ویژن ، تعلیم کا چرچا بہت ہوتا ہے جو یہاں سرے سے ہے ہی نہیں۔

مکر و فریب، دھوکہ، جل، دغا بازی، چالبازی، دورنگی، عیاری یہ کچھ ہماری پہچان بن گئی ہے۔ چاروں صوبوں کے درمیان اگر وحدت کی کوئی نشانی ہے تو وہ یہی دھوکہ بازی ہے بلکہ مقابلہ ہے ایکدوسرے سے آگے نکلنے کا۔

خاص کر تعلیم کے محاذ پر وہ لوٹ مار، غارتگری، چھینا جھپٹی، غصب و نہب ہو رہی ہے کہ رہے نام اللہ کا۔

تعلیمی معیار کی بہتری کیلئے جو لوگ کچھ کر سکتے ہیں وہ اسطرف توجہ نہیں دیتے انکے بنک اکاؤنٹ اور جائیدادیں بھی وطن سے باہر ہیں۔ انکی اولاد بھی باہر تعلیم حاصل کرتی ہے۔

وہ یہاں صرف اسلیے موجود ہیں کہ سفینہ پاکستان کے پیندے میں سوراخ کرتے رہے اور اللہ نہ کرے جب اسکے ڈوبنے کا یقین ہو جائے تو خود بھی اپنے بچوں کے پاس یعنی ملک سے باہر پہنچ جائیں۔ جن کی اولاد وہاں پڑھ لکھ کر معاشرہ میں اعلیٰ مقام حاصل کر لیتی ہے انہیں تعلیم سے کیا لینا ہے۔ جس کنوئیں کا پانی استعمال نہیں کرنا ہے اسکی صفائی پر کیوں توجہ دی جائے۔

یہی کچھ جب ملکی سیاست میں ہوتا ہے، اسمبلیاں اضحوکہ بن جاتی ہیں تو ملٹری آ جاتی ہے اور بے قابو حالات پر قابو پا لیتی ہے۔ دراصل ہمارے ہاں ملٹری کی مثال ریفری یا ایمپائر جیسی ہوتی ہے جو فریقین کے درمیان بگڑی کو بناتا ہے لیکن ریفری یہ نہیں کرتا کہ بال کو کسی گول میں دھکیل کر خود بھی فریق بن جائے۔

ہمارے ہاں ایسا ہی ہوا، بجائے اسکے کہ ملٹری تعلیم کے بگڑے نظام کو درست کرتی، تعلیم کے نام پر جو لوٹ کھسوٹ ہو رہی ہے اسکا علاج کرتی۔ ملٹری خود فریق بن گئی یعنی انہوں نے بھی لاتعداد اسکول کھول لیے۔

کراچی میں مسیحیوں نے اپنے ولیوں کے نام پر اسکول کھولے تھے۔ سینٹ پیٹرک، سینٹ جوزف، سینٹ پال، سینٹ فرانسیس، اور سینٹ لوئس وغیرہ۔ چونکہ انکا رابطہ مغربی ممالک سے تھے اور مغربی ممالک ان اسکولوں کی اسناد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

کیونکہ اولیاء مشترک ہیں اسلیے اب مسلمانوں نے بھی یہ نام استعمال کرنے شروع کر دیے ہیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج کو چھوڑ کر اب انگلستان کے دیہاتوں کے نام پر بھی یہاں اسکول کھل گئے۔

ایسا کرنے والے اہل وطن کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ انگریزوں کی زندگی قابل رشک اور قابل تقلید ہے تمام دنیا ہر شعبہ میں انکی محتاج ہے۔ ہم آپکے بچوں کو بھی ان جیسا بنا دینگے۔ اپنے بچے ہمارے داخل کرائیے۔

دوسرا گروہ یہ ترغیب دینے میں لگا ہوا ہے کہ یہ لادینی اسکول ہیں ان میں پڑھنے والوں کی صرف یہ دنیا خوبصورت ہو گی، ہمارے ہاں بچوں کو داخل کرائیے تو انکی آخرت بھی خوبصورت ہو گی۔

ان اسکولوں کے نام کچھ اسطرح ہیں، اقراء روضہ الاطفال، اقرا خزینہ الاطفال، اقراء سفینہ الاطفال، اقراء پسینہ الاطفال، مکہ مدینہ ایجوکیشنل اکیڈمی، فاطمہ بتول اکیڈمی، یثرب اکیڈمی، ام القری اسکول، اقراء روح الاطفال، اور اقراء میلینیم مانٹیسوری اکیڈمی وغیرہ وغیرہ۔

iqra school

iqra school

اقراء کے نام کے سینکڑوں اسکول کراچی میں ہیں۔ دیکھا جائے تو اقراء بالکل نامناسب نام ہے۔ اقراء فعل امر ہے حکم ہے یعنی ” پڑھ” اسطرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقراء روضہ الاطفال کے معنی ہوئے ” پڑھ بچوں کی نرسری” یعنی Read Children Nursery بھلا یہ کوئی بات ہوئی۔

اگر ہوتا پڑھ بچوں کی نرسری میں تو بات بنتی۔ میں نے ایک اقراء والے سے کہا ” یہ نام بدل لیجیے اگر عربی سے ناطہ جوڑنا ہی ہے تو یوں لکھیے۔ ” روضہ الاطفال للقراء والکتابہ ” بچوں کی نرسری برائے پڑھائی اور لکھائی”

پرنسپل صاحب نے تعجب سے میری طرف دیکھ کر کہا یہ نام تو مدظلہ العالی فلاں جنت مکانی صاحب نے تجویز کیا ہے، یہ کیسے غلط ہو سکتا ہے؟

یہی بات ایجوکیشن ڈائریکٹر صوبہ سرحد نے بھی مجھے کہی تھی۔ میں انکے پاس میٹرک کی عربی کتاب لے کر گیا تھا۔ میں نے کہا مجھے عربی استاد رکھ لیجیے کیونکہ میں دیکھ کر آیا ہوں آپ کے اساتذہ یہ کتاب پڑھانے کی اہلیت نہیں رکھتے اور اس کتاب میں بھی غلطیاں ہیں۔

کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ یہ کتاب پاکستان اور سعودی عریبیہ کے بہترین دماغوں کی ترتیب دی ہوئی ہے۔ میں نے کہا غلطی وہ جسے آپ تسلیم کریں نہ کہ جو میں کہوں۔
یہ دیکھیے لکھا ہے۔ ” ( عاصمات) ” عاصمة الباکستان اسلام آباد”ترجمہ لکھا ہے پاکستان کا دارالخلافہ اسلام آباد ہے۔ یہ غلط ہے چونکہ پاکستان میں نہ خلافت، نہ خلیفہ ہے، نہ خلیفہ کا دار ( گھر ) ہے۔

کہا آپکا مطلب ہے دارالسلطنت ہونا چاہیے؟ میں نے کہا ” نہیں دارالسلطنت تب ہوتا اگر پاکستان میں سلطان ہوتا۔ ” اسلام آباد کو دارالحکومت، مرکزی مقام صدر مقام وغیرہ کہہ سکتے ہیں مگر دارالخلافہ یا دارلسلطنت یا پایہ تخت وغیرہ نہیں کہہ سکتے۔

اقراء سکول کی دیکھا دیکھی اقراء لانڈری اور اقراء شوز( حیدری نارتھ ناظم آباد میں ) اور جانے کیا کیا بازار میں آ گیا ہے۔ لوگوں نے نعوذ باللہ اللہ تک کو نہیں چھوڑا، اقراء کیا چیز ہے؟

ماشاء اللہ ٹیلر، اللہ ہو آٹو ایکسچینچ، القیوم آٹو، سبحان اللہ چکن بھی دیکھے ہیں۔ اللہ کا پان سے کیا تعلق ہے۔ کاسمیٹکس سے کیا واسطہ ہے؟ اور لانڈری سے کیا لگاؤ ہے؟ اللہ کو ان چیزوں سے ملانا اللہ کی توہین نہیں ہے؟

ان مسلمانوں سے وہ سکھ زیادہ ہوشیار اور دانا تھا جو گندگی میں روپیہ تلاش کر رہا تھا اور کہتا جا رہا تھا اللہ روپیہ دے دے، یا اللہ روپیہ دیدے۔ ایدوسرے سکھ نے جب اسے دیکھا تو کہا ” مورکھ مسلمانوں کے خدا کا نام کیوں لے رہا ہے گرو کا نام کیوں نہیں لیتا؟
تو کہا ” یار بلونت، اچھا نہیں لگتا اس گندگی میں اپنے گرو کو گھسیٹوں، تھکنے دے مسلمانوں کے خدا کو تیرا کیا جاتا ہے اور میرا کیا جاتا ہے۔

ایک یہ لوگ ہیں جو اللہ کو پان، کاسمیٹکس اور لانڈری تک میں لا رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ان حضرات کا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ اللہ کے بندوں کو اس بالا و برتر نام سے دھوکہ دیا جائے۔ کانٹے میں وہ چارہ لگایا جائے جس سے مچھلی پھنس جائے۔

اس بلے کیطرح جس نے زمین پر پانی کے قریب دام ہم رنگ بچھایا تھا۔ کچھ دانے بکھیرے تھے ایک پرندے نے اڑتے ہوئے پوچھا کیا کر رہے ہو یہاں آبادی سے دور؟ کہا” تپسیا کر رہا ہوں اللہ کی مخلوقات کی خدمت کر رہا ہوں، آؤ کچھ دانے چگ لو۔ پانی پی لو، پھر چلے جانا، مجھے ثواب ملیگا۔

پرندے نے دانے تو دیکھے تھے مگر جال نہیں دیکھا تھا آیا اور جال میں پھنس گیا۔ بلے سے کہا ” ظالم اللہ کے نام سے دھوکہ دیا۔”

جو لوگ اللہ اور مکہ مدینہ اقراء اور ام القریٰ وغیرہ نام رکھتے ہیں۔ وہ غالبا قرآن کے مطابق
” یہ اپنے تئیں اللہ کو اور مومنوں کو دھوکہ دیتے ہیں مگر حقیقت میں اپنے آپکو دھوکہ دیتے ہیں، مگر شعور نہیں رکھتے۔”( البقرہ آیت نمبر 9)

مادام مونٹیسوری کے نام کی جو مٹی پاکستان میں پلید ہوئی ہے ایسی کہیں بھی نہ ہوئی ہو گی کچھ ایسے اسکول بھی ہیں جو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہم بچوں کی آخرت کیساتھ ساتھ انکی یہ دنیا بھی سدھارنے کی ضمانت دیتے ہیں۔

فالکن اسکول، قلندریہ مانٹیسوری، اقراء مدینہ اسلام وغیرہ۔ قلندریہ نام رکھنے والوں نے قلندر کیساتھ مادام مانٹیسوری کو بھی ہم آغوش کر دیا ہے۔ یعنی ” رند کے رند ہاتھ سے جنت نہ گئی ”۔

جس اسکول میں بچے داخل کرانا چاہو ایک خطیر رقم داخلہ فیس کے نام سے لے لیں گے۔ اگر یہی رسم یوٹیلٹی اسٹورز، مختلف اداروں، ڈاکخانوں وغیرہ میں چل پڑی کہ پہلے داخلہ فیس بھرو پھر خریدی ہوئی اشیاء کی قیمت ادا کرو تو عوام چلا اٹھیں گے کہ یہ حرام کفر ہے دھاندلی ہے، ظلم ہے، اندھیر ہے وغیرہ وغیرہ۔

حقیقتا یہ ناجائز ہے۔ پیسہ لینے کے بدلے کچھ دیا جاتا ہے، ماہانہ پڑھائی کا تو معاوضہ لیا جاتا ہے، داخلہ فیس کے عوض کیا ملتا ہے؟ اگر یہ سب، دین سے ناواقف حضرات کرتے تو بات سمجھ میں آنیوالی تھی مگر تعجب یہ کہ دین کی دعویدار جماعتیں اس معاملے میں سب سے دو قدم آگے ہیں۔

doctor

doctor

جو ڈاکٹر اپنے مریض کو یہ لکھ کر تاکید کرتا ہے کہ دوا صرف فلاں کیمسٹ سے لینا، ایکسرے اور ٹیسٹ فلاں لیبارٹری سے کروانا اسکی بے ایمانی میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔

اور کسی اسکول یا درسگاہ کی ایمانداری اور دیانتداری پرکھنے کی بڑی آسان ترکیب یہ ہے کہ جن کی کتابیں، کاپیاں، یونیفارم وغیرہ باہر سے سستی لینے کی اجازت نہ ہو، کاپی تو کاپی ہوتی ہے مگر یہ بچوں کے پاس ایسی کوئی کاپی نہیں رہنے دیتے جس پر انکے اسکول کا مونو گرام نہ ہو۔

اور یہ تمام اشیاء بازار سے مہنگے داموں صرف انہیں کے ہاں سے ملے تو سمجھ لیجیے کہ یہ اسکول نہیں بلکہ چند مفاد پرستوں نے عوام کو لوٹنے کیلئے دام فریب پھیلایا ہے اور یہ دام فریب آجکل ہر پانچویں گھر میں پھیلایا گیا ہے۔

جس گھر میں ایک میاں بیوی ہو، دو بہویں اور ایک دو بیٹیاں ہوں اسکول کھل جاتا ہے۔ شہر ناپرسان ہے کون پوچھتا ہے؟ اور اگر کوئی پوچھنے آیا بھی تو کیا اسکی قیمیض میں جیب نہیں ہو گی چیکنگ والے غلط یا غیر قانونی والے کاروبار کی بو سونگھ کر آ جاتے ہیں مگر اس لیے نہیں کہ اس کاروبار کو بند کر دیں، نہیں وہ اس لیے آ جاتے ہیں کہ تم جو لوٹ کھسوٹ کر رہے ہو اس میں ہمارا حصہ کہاں ہے؟

سنا یہی ہے کہ اس میں تمام اوپر والے بھی شریک ہوتے ہیں ماسوائے اللہ کے، یہ اسکول نہیں بلکہ یہاں سیاست میں حصہ لینا اور اسکول کھولنا ایک کاروبار ہے۔ کمائی کا ذریعہ ہے انہیں کیا پتہ کہ اسکول کیا ہوتے ہیں؟ تعلیم کسے کہتے ہیں؟

ترقی یافتہ قوموں کی صفوں میں کھڑا ہونے کیلئے ہمیں سائنسی تعلیم کی اشد ضرورت ہے لیکن جب کیفیت ایسی ہو تو کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔ یوں لگتا ہے شاہراہ ریشم کے راستے ہمارے بچوں کو تعلیم کے حصول کیلئے چین جانا پڑیگا۔

کالج کا معاملہ یوں ہے کہ دو پارٹیوں کا قبضہ ہے۔ نیا لڑکا جاتا ہے تو اسے کسی ایک پارٹی میں شمولیت اختیار کرنی پڑتی ہے۔ گویا غنڈہ گردی میں نام لکھوانا پڑتا ہے۔ ہفتے میں دو دن ایک بچے کو کالج جانا پڑتا ہے۔ گھوم پر کر بچے واپس آ جاتے ہیں کیونکہ انہیں ٹیوشن پڑھنے جانا ہوتا ہے۔

پڑھائی باہر ہوتی ہے کالج میں داخلہ سند کیلئے لیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی میں سیٹ کیلئے دو سے چار لاکھ روپے تک طلب کیے جاتے ہیں۔ نام رکھا جاتا ہے ڈونیشن حالانکہ ڈونیشن برضا و رغبت جس کی طاقت ہو دیتے ہیں مگر یہاں زبردستی طلب کی جاتی ہے ورنہ داخلہ ناممکن ہوتا ہے۔

دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں کے بچے خالی ہاتھ اسکول بس میں سوار ہوتے ہیں اور خالی ہاتھ واپس آتے ہیں۔ کتابیں ہر بچے کے ڈیسک میں ہوتی ہیں وہاں کے بچے ہی ڈاکٹر اور انجینئر بنتے ہیں۔ میرا بچہ عربی میں دقت محسوس کرتا تھا۔ میں نے کہا بیٹا کتابیں واپس لیا کرو تاکہ میں تمہاری مددکیا کروں۔

کہنے لگا ابا کتابیں دیتے ہیں۔ میں نے کہا فکر نہ کرو کل میں تمہارے اسکول آؤں گا، کیسے نہیں دیتے؟ کمال یہ ہے کہ درسی کتاب بازار میں نہیں ملتیں صرف اسکول میں ہر بچے کو مفت ملتی ہیں۔

دوسرے دن میں باوردی پستول وغیرہ لٹکا کر اسکول گیا۔ یہ اچھا تھا کہ چائے کا وقفہ تھا۔ تمام اساتذہ ایکساتھ بیٹھے تھے۔ ان میں کچھ میرے واقف بھی تھے۔ کہا فرمائیے کیسے آنا ہوا؟ میں نے مدعا بیان کیا کہ
” آپ لوگ میرے بچے کو کتابیں دیا کریں” کہا ‘ لماذا ‘ کس لیے؟ میں نے کہا تاکہ میں عربی میں مدد کیا کروں۔ وہ ہنسنے لگے۔ میں نے کہا ‘ ھل حکیت نکت؟ کیا میں نے کوئی لطیفہ بیان کیاہے۔ جو آپ لوگ ہنس رہے ہیں؟ کہا لطیفہ سے کم بھی نہیں کبھی ہم بھی آپکے پاس آئے کہ کہ مجرم پکڑنے میں ہماری خدمات لیا کریں؟

” وانت کیف تدخل فی شوؤننا؟ آپ کیسے واجبات میں گھس رہے ہیں؟ ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں تلمیذ لائق بنے تو اسکا سہرا ہمارے سر ہو۔ اگر نالائق بنے تو اسکے لیے بھی ذمہ دار ہم ہی ہوں۔ ہم انہیں چھٹی دیکر گھر بھیجتے ہیں اسلیے کہ یہ کھائیں پئیں لکھیں آرام کریں دوسرے دن تازہ دم ہو کر پڑھنے آئیں نہ کہ گھر جا کر بھی وہی کچھ کریں جو کچھ اسکول کی چار دیواری میں کرتے ہیں۔

اگر ایک محاسب Accountant گھر جا کر بھی حساب کتاب میں جا کر لگا رہے، یا ایک نجار( بڑھئی ) گھر جا کر بھی آرے رندہ چلاتا رہے تو اس کی کیا حالت ہو گی، وہ کتنے دن جائیگا؟ وہ تو ( کوسا) کدو بن جائیگا۔

میں نے سوچا واقعی یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ہم جو ترقی نہیں کر پا رہے ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہر دفتر اور ادارے میں کدو ہی کدو بیٹھے ہیں۔ ہمارے ہاں تعلیم کا سلسلہ ٹیوشن پر چل رہا ہے اور بڑے بھونڈے انداز میں چل رہا ہے۔ دو محاذ ایسے ہیں یعنی تعلیم اور صھت جس میں پاکستانی قوم کیساتھ ابتدا سے لیکر آج تک دھوکہ ہو رہا ہے۔ وہاں گاؤں کا بچہ شہر پڑھنے نہیں جاتا کیونکہ شہر اور دیہاتی اسکول کا معیار یکساں ہوتا ہے البتہ کالج اور یونیورسٹی کیلئے شہر جانا پڑتا ہے وہاں ابتدائی تعلیم کیلئے بہترین اساتذہ کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔

یہاں ابتدائی کلاسوں کیلئے وہ استاد ہوتے ہیں جو ملٹری اور پولیس میں بھرتی کے قابل نہیں ہوتے اور بھی کوئی ڈھنگ کی نوکری نہیں ملتی تو محکمہ تعلیم میں آ جاتے ہیں۔ لہٰذا نہ ہماری چکی درست ہے نہ ہمارے دانے صحیح ہیں۔

خیر یہ بھاری بھرکم بستے لانے لیجانے کا ایک افادی پہلو بھی ہے وہ یہ کہ تعلیم کے ذریعے معاشرے میں جائز مقام یا کوئی روزگار تو ملنے سے رہا، البتہ اسٹیشن پر قلی کا کام آسانی سے مل جاتا ہے۔ بوجھ اٹھانے کی پریکٹس تو بچپنے سے ہی ہوئی ہوتی ہے۔

medical store

medical store

میں نے کیمسٹ کی ایک ایسی دکان دیکھی جس پر ہمیشہ چھٹی ساتویں کلاس کا ایک لڑکا بیٹھا رہتا ہے۔ میں نے پوچھا کیا یہاں کوئی چیکنگ کیلئے نہیں آتا؟ کیونکہ تمہارے پاس تو لائسنس نہیں ہوگا کیونکہ تم ابھی بچے ہو، کہا لائسنس تو ابا جان کے پاس بھی نہیں، وہ دوسری دکان پر بیٹھتے ہیں۔ مگر یہاں ایک آفیسر آتا ہے، موٹر سائیکل روک کر وہ مجھے بلاتا ہے میں اسے لفافہ دیدیتا ہوں۔ وہ چلا جاتا ہے۔

کام چل رہا ہے۔ اسکے ساتھ بیٹھے ہوئے بزرگ نے انگلی کا اشارہ آسمان کی طرف کیا، کہا:
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات ابتک بنی ہوئی ہے

مجھ سے کہا آپ شاید کراچی میں نئے وارد ہوئے ہیں اسلیے آپکو تعجب ہو رہا ہے۔ دراصل قانون نام کی کوئی چیز یہاں ہے ہی نہیں اگر ہے بھی تو شرفاء کو سیدھا کرنے کیلیے ہے۔ محض دکھاوا ہے جسطرح رکشہ ٹیکسی کا میٹر جو ہونے کو ہے مگر اس پر کوئی رکشہ یا ٹیکسی نہیں چلتی۔

جبکہ یہاں پولیس کا محکمہ بھی ہے اور ٹیفک ڈیپارٹمنٹ بھی میرا خیال ہے اہل وطن نے آزادی کا یہی مطلب لیا ہے کہ ہر چور رشوت خور، دغا باز، اسمگلر، ذخیرہ اندوز ملاوٹیے، گراں فرش اور لٹیروں کو ہر طرح کی مکمل آزادی حاصل ہو۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہر بدعنوانی میں اوپر والے بھی شریک ہوتے ہیں۔ اوپر والا تو رب ہے، یا اللہ یہ آپکو بدنام کر رہے ہیں۔ انکا کام تمام کر دے، پاکستان کو انکے وجود سے پاک کر دے، صحیح معنوں میں پاک، مظفر آباد، بالا کوٹ کیطرح پاک، آمین۔

تحریر: حسین امیر فرہاد