خلوت میں کھلا ہم پہ کہ بیباک تھی وہ بھی

bebaak thi wo bhi

bebaak thi wo bhi

خلوت میں کھلا ہم پہ کہ بیباک تھی وہ بھی
محتاط تھے ہم لوگ بھی، چالاک تھی وہ بھی

افکار میں ہم لوگ بھی ٹھہرے تھے قد آور!
پندار میں ” ہم قامتِ افلاک ” تھی وہ بھی

اسے پاسِ ادب، سنگ صفت عزم تھا اس کا
اسے سیل طلب، صورت خاشاک تھی وہ بھی

جس شب کا گریباں ترے ہاتھوں سے ہوا چاک
اے صبح کے سورج، مری پوشاک تھی وہ بھی

اک شوخ کرن چومنے اتری تھی گلوں کو
کچھ دیر میں پیوستِ رگِ خاک تھی وہ بھی

جس آنکھ کی جنبش پہ ہوئیں نصب صلیبیں
مقتل میں ہمیں دیکھ کے نمناک تھی وہ بھی

دیکھا جو اسے، کوئی کشش ہی نہ تھی اس میں
سوچا جو اسے، حاصل اور اِدراک تھی وہ بھی

جو حرف مرے لب پہ رہا زہر تھا محسن
جو سانس مرے تن میں تھی سفاک تھی وہ بھی

محسن نقوی