خواتین کو جلانے کا عمل

 

burning women pakistan

burning women pakistan

جرائم کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسانی تا ریخ ۔روایات کے مطا بق تاریخ کا پہلا قتل آدم   علیہ السلام کے بیٹے نے اپنے بھائی کو مار کر کیا رقابت ، نفرت،حر ص جیسے منفی محر کا ت ارتکاب جر م کا سبب بنتے ہیں پدری معاشروں کے قیام کے بعد عورت کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا گیا اور اسکے جملہ انسانی حقو ق سلب کر لئے گئے ۔ماضی قر یب تک عورت کا کام محض مردو ں کے جنسی جذ بات کی تسکین کرنا ، بچے پالنا اور گھریلو ذمہ داریاں ادا کر نا تھا جبکہ عورت کے حقو ق کا کہیں ذکر نہیں تھا ۔لڑکیو ں کو پیدا ہو تے ہیں زند ہ در گو ر کر دیا جا تا تھا ۔سب سے پہلے اسلا م میں قرآنی پیغام کے ذریعہ پیغمبر انسا نیت حضر ت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کے حقوق کا علم بلند کیا اور انہیں معا شرے کا معزز فرد گردا نہ ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   نے اپنے عملی کر دا ر کے زریعے عورت کے معا شرہ میں مقا م کو بہت بلند کر دیا ۔جب مغر ب نے خواب غفلت سے انگڑائی لی تو ظلم وجبر کے دوسر ے بہت سے پہلوئوں کی طر ح عورتو ں کے حقو ق کی آواز بھی بلند ہو ئی ۔عو رتو ں کے حقو ق کے تحفظ کے لئے نجی اور حکو متی سطحو ں پر بہت کام ہو ااور با لآخر خوا تین کے حقوق کو ملکی قوا نین اور یو این او جیسی بین الاقوا می تنظیمو ں کے چا رٹر کے ذریعے تحفظ فرا ہم کر دیا گیا ۔اگر چہ آج حا لا ت ما ضی سے بہت بہتر ہو چکے ہیں لیکن اب بھی حکو متی اور بین اقوامی ادا رو ں کے زریعے عو رتوں کو فر اہم کئے گئے حقوق کو عملی شکل دینے کے لئے لمبی جدو جہد کی ضرورت ہے۔ عورتو ں پر ہو نے وا لے مظا لم کا ایک بھیا نکرخ ان کو جلا نا دینا ہے ۔جلانے کے اس عمل میں عورت یا تو اس جہان فا نی سے کوچ کر جا تی ہے یا پھر وہ زند گی بھر کے لئے معا شرے میں نا قا بل قبو لاور اچھو ت بن کر رہ جا تی ہے ۔پاکستا ن میں بھی اس قسم کے واقعا ت تواتر سے منظر عام پر آتے رہتے ہیں جس میں عمو ماًگھر پر چو لہا پھٹ جا نے سے یا کسی دو سری وجہ سے عو رت جل جا تی ہے اور اکثر اوقا ت مو ت کے منہ میں چلی جا تی ہے ۔1998ء کے دورا ن پنجا ب میں خوا تین کے جلنے کے282واقعا ت رپو رٹ کئے گئے ۔ ان واقعا ت میں متا ثر ہ 65 فیصد خوا تین زخمو ں کی تا ب نہ لا تے ہو ئے وفا ت پا گئیں ۔راولپنڈ ی اور اسلا م آباد کے ہسپتا لو ں میں 1994 ء میں لئے گئے تین سا ل کے اعدا د وشما ر کے مطا بق 739خوا تین جلنے کا شکا ر ہو ئیں ۔یقینا ان متا ثر ہ خوا تین کی تعداد کئی گنا زیا دہ ہو گئی جن کے واقعا ت رپو رٹ نہیں ہو سکے یا وہسپتا ل تک نہ پہنچ سکیں ۔یہ با ت بہت اہم ہے کہ گھر یلو سطح پر خوا تین پر تشدد عو رتو ں کے اعتما د اور عز ت نفس کی نفی کر تا ہے اور انکی صحت خرا ب کر تا ہے جبکہ عوا می سطح پر تشدد کا خو ف خوا تین کو معا شر تی تر قی میں ان کے جا ئز کر دا ر سے محر وم کر دیتا ہے ۔مختلف معاہدا ت کی رو شنی میں یہ حکو مت پا کستا ن کی ذمہ دا ری ہے کہ گھر یلو تشدد کی شکا ر خوا تین کا مکمل تحفظ فرا ہم کر ے ۔پا کستا ن 1996 سے ”عورتو ں کے عا لمی کنو نشن”کا ممبر ہے ۔اس کنو نشن کی رو سے حکو مت کی ذمہ دا ری ہے کہ ایسے سما جی طرز عمل اور رسم ورواج کو ختم کر نے کی بھر پو ر کوشش کر ے جو مر دو ں اور عو رتو ں کے درمیا ن بنیا دی حقو ق کے حوا لے سے تفر یق کر تے ہیں ۔ پا کستا ن نے خوا تین کے خلا ف تما م اقسا م کے امتیا زی سلو ک کے خا تمے کے کنو نشن سی ڈی او پر بھی دستخط کر رکھے ہیں جس کے تحت ایسے تما م رسم وروا ج جو خوا تین کے خلا ف امتیاز پیدا کرتے ہیں ان کو ختم کر دیا جا ئے گا ۔دفعہ 174 الف ضابطہ فوجدا ری پا کستان، یہ دفعہ تین حصو ں پر مشتمل ہے۔جلا نے سے شدید زخ ، جب کسی اایسے شخص جو کہ آگ، مٹی کے تیل ،کیمیا وی ما دے یا کسی بھی اور زریعہ سے جلنے کے سبب شدید زخمی ہو گیا ہو کو میڈ یکل افسر کے رو برو لا یا جا ئے یا اگر جلنے کا کو ئی وا قعہ پو لیس سٹیشن کے افسر انچا رچ کے علم میںلا یا جا ئے تو وہ (میڈ یکل افسر یا پو لیس افسر انچا رج)قر یبی مجسٹر یٹ کو اس واقعہ کی فوری اطلا ع دینے کے پا بند ہو ں گے۔سا تھ ہی سا تھ ڈیو ٹی پر مو جو د میڈ یکل افسر فوری طو ر پر زخمی شخص کا بیا ن قلمبند کر گا تا کہ حا لا ت و واقعا ت کا جا ئزہ لیا جا سکے نیز جلنے کی وجو ہا ت کا تعین کیا جا سکے ۔مجسٹر یٹ کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایسے شخص کا بیا ن قلمبند کرے گا وہ اس وقت تک بیان دینے کے قا بل رہا ہو ۔ نمبر دو ڈیو ٹی پر مو جو د میڈ یکل افسر یا بصورت دیگر مجسٹریٹ بیا ن قلمبند کر نے سے قبل اس با ت کا اطمینان کر لے گا کہ زخمی شخص کسی دھمکی یا دبا ئو کے زیر اثر تو نہیں ہے ۔اس بیا ن کی نقو ل متعلقہ ایس پی ، سیشن جج اور افسر انچا رج پو لیس سٹیشن کو بھیجی جا ئیں گیا نمبر تین اگر مضرو ب شخص کسی وجہ سے اس قا بل نہیں رہا ہے کہ مجسٹر یٹ کو اپنا بیا ن قلمبند کروا سکے توایسی صورت میں میڈ یکل افسر کا قلمبند کر دہ بیا ن سر کر کے مجسٹر یٹ کو یا ابتدا ئی سما عت کی مجا زعدا لت کو ارسا ل کیا جا ئے گا اور زخمی شخص کے انتقال کی صورت میں اس بیا ن نزعی کے طو ر پر شہا دت/ ثبو ت کی حیثیت میں تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔اگر چہ یہ قانون ازروئے آرڈی نینس 66 ،مو رخہ 17 نو مبر 2001 سے نافذ العمل ہے لیکن عوا م النا س کے علا وہ پو لیس افسرا ن ، قا نو نی ما ہر ین ، مجسٹر یٹ ،انسا نی حقو ق کے علمبردار ادارے اور میڈیکل افسرا ن بھی اس قا نو ن سے کما حقہ آگا ہی نہیں ہیں۔ تحقیق اور سروے سروے رپو رٹس سے اخذ کر دہ نتا ئج کی رو سے عورتو ں کو جلا ئے جا نے کے واقعا ت کی تہہ میں عموماًمند رجہ ذیل و جو ہات کا ر فر ہو تی ہیں ۔1 ۔اولا دنر ینہ پیدا کر نے میں نا کا فی 2 ۔خاوند کی دوسر ی شا دی 3 ۔نا فر ما نی / حکم عدولی یا زبا ن درازی 4 ۔خا وند اور سسرا لیو ں کے لڑ کی کے خاوند سے خراب تعلقا ت 5 ۔نا کا فی جہیز 6 ۔نا جا ئز تعلقا ت یا زنا کا ری کا شعبہ متا ثرہ خوا تین کے افراد خا نہ عمو ماً”قتل”کے ایسے واقعا ت کو کھا نا پکا نے کے دورا ن ”حا دثے”کا رنگ دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جلنے وا لی خوا تین پر مٹی کا تیل چھڑ ک کر آگ لگا ئی گئی ہو تی ہے ۔ایسی خوا تین کی عمر عمو ماً18 سے35 سال کے درمیان ہو تی ہے۔ پا کستا ن ایک اسلا می ملک ہے جس میں بسنے والو ں کی غا ئب اکثر یت مسلما ن ہے۔اس لئے ہما را قانو نی انسا نی اور اسلا می فرض بنتا ہے کہ خوا تین کے خلا ف ہو نے وا لے اس گھناونے جرم کے سدباب کے لئے تمام ممکنہ کوشش کریں اور لوگوں میں با لعمو م اور خواتین میں بالخصوص قانون میں تحفظ کے حوا لے سے شعور بیدار کریں۔
تحر یر : شیراز پرویز مشتاق بھمبر آزاد کشمیر