درد سے دل نے آشنائی کی

 dard

dard

درد سے دل نے آشنائی کی
اپنے دشمن کی پذیرائی کی

لہجہ رکھتے ہیں اجنبی کا سا
بات کرتے ہیں شناسائی کی

پر شکستہ کا حکم ہے جس میں
ہے اسی میں خبر رہائی کی

زندگی کس قدر دگرگوں ہے
بات کرتے ہو کبریائی کی

بات ہے اختیار کی ورنہ
تم سے جتنی بنی خدائی کی

کھو دیا اپنے آپ کو ہم نے
ایک ہی بات کی بھلائی کی

اس سے زیادہ جفا تو نہ کیجیے
حد بھی ہوتی ہے آشنائی کی

جانے کیسا دیوانہ تھا مجنوں
دشت نے جس کی پذیرائی کی

لامکاں کا طلسم بکھرے گا
اس کی مرضی ہے خودنمائی کی

خضر کو دیکھیے عجب شے ہیں
آج بھی ضد ہے رہنمائی کی

شاہد رضوی