دل ابھی لوٹا نہیں

dil abhi louta nahin

dil abhi louta nahin

صبح سے نکلا ہوا ہے گھر سے
رات بھی بیت چلی ہے اب تو
جانے کس بیتے ہوئے وصل کے کملائے ہوئے در پہ
پڑا ہو گا کہیں
جانےکس الجھے ہوئے ہجر کےزانو پر ذرا ٹیک کےسر
چین سے سویا ہو گا
دل ابھی لوٹا نہیں
صبح سے نکلا ہوا ہے گھر سے
آ گیا ہو گیا کسی درد کے بہلاوے میں
اور کسی راہ کے ویران کنارے پہ پڑا خواب بلکتا ہو گا
آتے جاتے ہوئے ہر ایک مسافر کی طرح
ایک سہمی ہوئی امید سے تکتا ہو گا
سوچتا ہو گا جدائی کی کوئی انت نہیں

فرحت عباس شاہ