دل کے ارمان مرتے مرتے جاتے ہیں

zakham

zakham

دل کے ارمان مرتے مرتے جاتے ہیں
سب گھروندے بکھرتے جاتے ہیں

محملِ صبحِ تو کب آئیگی
کتنے ہی دن گزرتے جاتے ہیں

مسکراتے ضرور ہیں لیکن
زیرِ لب آہ بھرتے جاتے ہیں

تھی کبھی کوہ کن میری شیریں
اب تو آدابِ برتے جاتے ہیں

بڑھتا جاتا ہے کاروانِ حیات
ہم اسے یاد کرتے جاتے ہیں

شہر آباد کر کے شہر کے لوگ
اپنے اندر بکھرتے جاتے ہیں

جون یہ زخم کتنا کاری ہے
یعنی کچھ زخم بھرتے جاتے ہیں

جون ایلیا