دل ہی تو ہے نہ

dil hi to hai na

dil hi to hai na

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

دیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں

جب وہ جمال دل فروز، صورت مہر نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں

دشنہ غمزہ جاں ستاں، ناوک ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رخ سہی سامنے تیرے آئے کیوں

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

حسن اور اس پر حسن ظن، رہ گئی بوالہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں

داں وہ غرور عزو ناز، یاں یہ حجاب پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں

ہاں وہ نہیں خدا پرست، جائو وہ بے وفا سہی
جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجیے ہائے ہائے کیوں؟

غالب