دور دور تک کوئی جب نظر نہیں آتا

alone boat in water

alone boat in water

دور دور تک کوئی جب نظر نہیں آتا
آنکھ کا پرندہ بھی لوٹ کر نہیں آتا

موت بھی کنارہ ہے وقت کے سمندر کا
اور یہ کنارہ کیوں عمر بھر نہیں آتا

خواہشیں کٹہرے میں چیختی ہی رہتی ہیں
فیصلہ سنانے کو دل مگر نہیں آتا

دور بھی نہیں ہوتا میری دسترس سے وہ
بازوئوں میں بھی لیکن ٹوٹ کر نہیں آتا

اپنے آپ سے مجھ کو فاصلے پہ رہنے دے
روشنی کی شدت میں کچھ نظر نہیں آتا

میں کبھی نوید اس کو مانتا نہیں سورج
بادلوں کے زینے سے جو اتر نہیں آتا

اقبال نوید