دو گام گر چلو گے کسی اجنبی کے ساتھ

walk on railway line

walk on railway line

دو گام گر چلو گے کسی اجنبی کے ساتھ
الزام بھی ملے گا تمہیں دوستی کے ساتھ

پہرے لگا کے عشق پہ رختِ سفر دیا
تھا یہ بھی اک مذاق مری رہروی کے ساتھ

واعظ کو میری طرزِ عبادت پہ اعتراض
شرطیں وہ باندھتا ہے مری بندگی کے ساتھ

کیا وقت آ پڑا ہے محبت میں دوستو
رسمِ وفا نبھاتے ہیں شرمندگی کے ساتھ

خوف وہراس پھیلا تھا اس درجہ ہر طرف
دیکھا ہے زندگی کو سراسیمگی کے ساتھ

چلتا رہا میں تیرا تصور لیے ہوئے
میں نے سفر کیا ہے اسی روشنی کے ساتھ

میں سادہ لوح ہوتے ہوئے بھی تھا ہوشمند
کچھ عقل بھی رہی ہے میری سادگی کے ساتھ

لوٹا گیا ہے جب سے قمر تیرے شہر میں
بنتی ہے خوب اس کی آب آوارگی کے ساتھ

سید ارشاد قمر