دکھ کے لہر نے چھیڑا ہو گا

dukh ki lehar

dukh ki lehar

دکھ کے لہر نے چھیڑا ہو گا
یاد نے کنکر پھینکا ہو گا

آج تو میرا دل کہتا ہے
تو اس وقت اکیلا ہو گا

میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہو گا

بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کر سویا ہو گا

ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہو گا

شہر کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ہو گا

آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ہو گا

یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ہو گا

موتی جیسی شکل بنا کر
آئینے کو تکتا ہو گا

شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ہو گا

نیلی دھندلی خاموشی میں
تاروں کی دھن سنتا ہو گا

میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ہو گا

شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ہو گا

پیاسی کرلاتی کونجوں نے
میرا دکھ تو سنایا ہو گا

میں تو آج بہت رویا ہوں
تو بھی شاید رویا ہو گا

ناصر تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ہو گا

ناصر کاظمی