رکتا بھی نہیں ٹھیک سے چلتا بھی نہیں ہے

Dil e naadan

Dil e naadan

رکتا بھی نہیں ٹھیک سے چلتا بھی نہیں ہے
یہ دل کہ ترے بعد سنبھلتا بھی نہیں ہے

یہ شہر کسی آئینہ کردار بدن پر
الزام لگاتے ہوئے ڈرتا بھی نہیں ہے

اک عمر سے ہم اس کی تمنا میں ہیں بے خواب
وہ چاند جو آنگن میں اترتا بھی نہیں ہے

پھر دل میں تری یاد کے منظر ہیں فروزاں
ایسے میں کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے

اس عمر کے صحرا سے تری یاد کا بادل
ٹلتا بھی نہیں اور برستا بھی نہیں ہے

ہمراہ بھی خواہش سے نہیں رہتا ہمارے
اور بامِ رفاقت سے اترتا بھی نہیں ہے

نوشی گیلانی