سب اپنی ذات کے اظہار کا تماشا ہے

walking on water

walking on water

سب اپنی ذات کے اظہار کا تماشا ہے
وگرنہ کون یہاں پانیوں پہ چلتا ہے

تمام عمر کی نغمہ گری کے بعد کھلا
یہ شہر اپنی سماعت میں سنگ جیسا ہے

اسے بھی ڈھنگ نہ آئے گا بات کرنے کا
مجھے بھی عرضِ ہنر کا کہاں سلیقہ ہے

مرا وجود ہے اور بے شمار آنکھیں ہیں
یہ سارا شہر ہے اور اس میں ایک چہرہ ہے

چھتوں سے دھوپ تو رکتی ہے بھوک ٹلتی نہیں
تلاشِ رزق میں گھر سے نکلنا پڑتا ہے

کہا نہیں تھا تجھے اس کے ساتھ ساتھ نہ چل
ہوا کے سامنے کس کا چراغ جلتا ہے

نوشی گیلانی