سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

mirza ghalib

mirza ghalib

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

تھیں بنات النعش گردون دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

قید میں یعقوب نے لی، گو، نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوار زنداں ہو گئیں

ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی حوریں اگر وہاں ہو گئیں

نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں

میں چمن میں کیا گیا، گویا دبستاں کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں صرف درباں ہو گئیں

ہم موجد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

یوں ہی گر روتا رہا غالب تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا اس بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

غالب