سمجھ میں کچھ نہیں آتا

sad evening

sad evening

ہمیں کس ہاتھ کی محبوب ریکھائوں میں رہنا تھا
کس دل میں اترنا تھا
چمکنا تھا کن آنکھوں میں
کہاں پر پھول بننا تھا
تو کب خوشو کیصورت کوئےجاناں سے گزرنا تھا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
ہمیں کس قریہ آب و ہوا کے سنگ رہنا تھا
کہاں شامیں گزرنا تھیں
کہاں مہتاب راتوں میں کسی کو یاد کرنا تھا
کسی کو بھول جانا تھا
کہاں پر صبح کا آغاز کرنا تھا کہاں سورج نکلنا تھا
سفر کے دشت میں تنہا تھکے ہارے مسافر کو
کہاں خیمہ لگانا تھا
کہاں دریا میں کشتی ڈالنا تھی اور کس ساحل اُترنا تھا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا
ہمیں کس قریہ آب و ہوا کے سنگ رہنا تھا

نوشی گیلانی