سیاچین اور سیاستدان

siachen

siachen

سیاچین ایک بلند اور سرد ترین مقام ہے جہاں پر لوگوں کے خون تک جم جاتے ہیں۔ مگر ہمارے فوجی جوان اس جگہ پر دن رات ہماری حفاظت کی خاطربیٹھ کر ہمیں سکون کی نیند سلاتے ہیں۔ مگر 7اپریل کو گیاری سیکٹر میں ایک ایسا ہولناک واقعہ ہوا ہے کہ جس کوابھی تک نہ دماغ نے تسلیم کیا اور نہ ہی عقل نے۔ کیونکہ ہمیں سکون کی نیند سلانے والے خود ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جن کو کہا جا سکتا ہے کہ نہ وہ زمین پر اور نہ ہی آسمان پر۔ اللہ کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔ جواس کو منظور ہو وہی ہوناہوتاہے اور اس نے تو انسان کی ہر کام میں آزمائش لینی ہوتی ہے۔ کبھی ہیضے کی وباسے لوگ مر گئے’ملیریا سے جتھے کے جھتے موت کی آغوش میں چلے گئے۔ زلزلے سے شہر کے شہر نیست ونابود ہوگئے ‘آتش فشاں پھٹے’ سونامی ٹکرائے اورسب کچھ بہہ گیا۔پہاڑ سرکے اور قافلوں کے قافلے دب گئے۔بحرحال مصیبت کی اس گھڑی میں تمام پاکستانی ان فوجی جوانوں کے خاندان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں اور ان کے لیے اس وقت یہ ہی کہ سکتے ہیں اناللہ وان علیہ راجعون کیونکہ مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ ہر دکھ میں یہ الفاظ ادا کرے۔

ویسے بھی یہ تو شہداء ہیں اور شہید کبھی مرتے نہیں۔ یہ تو ہر پاکستانی کے دل میں زندہ تابندہ رہیں گے۔ ہمارے ملک کے سیاستدانوں کے رویے کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ملک میں اگر کسی بھی سیاسی پارٹی کا ایک کارکن بھی مر جائے یا مارا جائے تو وہ پورے ملک میں آگ لگا دیتے ہیں ، مارکٹیں بند کرادیتے ہیں اور توڑ پھوڑ کرکے لاکھوں کانقصان کردیتے ہیں اور پھر تین دن سے چالیس دن تک سوگ کا اعلان علیحدہ کردیتے ہیں۔ مگر مجھے انتہائی افسوس اور دلی دکھ سے یہ لکھنا پڑرہا ہے کہ ہمارے کسی سیاستدان نے ایسا ایک لفظ بھی ان کے لیے نہیں بولا۔ کیا ان کی جانیں کارکنوں کی جانوں سے کم قیمتی ہیں۔ یہ ان کے کاکوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ ہا ں یہاں ایک بار پھر نوازشریف نے میدان مار لیا اور ہمت کرکے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں پر یہ واقع ہوا ہے۔لیکن انہوں نے جوباتیں میڈیا سے کی ان کا ذکر بعدمیں ہوگا۔اس کے بعد صدر پاکستان نے بھی ہمت کی یا اپنے اپوزیشن لیڈر کے جانے کی وجہ سے مجبور ہوکر اور حوصلہ کرکے وہ بھی گیاری پہنچنے میں کامیاب ہوئے جبکہ صدر پاکستان تو مسلح افواج کے سپریم کمانڈربھی ہیںاوران کو تو سب سے پہلے وہاں پہنچنا چاہیے تھا۔

اس کے بعد کسی سیاستدان کی ہمت نہیں ہوئی کہ اتنے بلند اور سردمقام پر جائے۔ مگرعمران بھائی نے جو بولا اس کا تو کیا کہنا۔ ایسی بات میرے جیسا بندہ کہے تو مانی بھی جاسکتی مگر عمران خان نے تو حد کردی ۔ بھائی نہیں جانا تو نہ جائو مگر جھوٹ بھی کیوں بولتے ہو کہ نواز شریف جتنے وسائل نہیں جبکہ ایسے کاموں کے لیے تو لوگ چندہ جمع کرلیتے ہیں اور آپ تو چندہ جمع کرنے میں ماہر ہو آپ نے تو شوکت خانم ہسپتال تعمیر کرلیا ہے اس کے علاوہ خان صاحب آپ کے پاس سونامی بھی تو ہے ویسے بھی خان صاحب کا یہ سارا علاقہ دیکھا بھالا ہے کیونکہ اپنی جوانی کے دور میں اپنے دوست احبات کے ساتھ سیروسیاحت انہیں علاقوں کی کیا کرتے تھے۔ اگر آپ کے پاس وسائل نہیں تو آپ اپنے کارکنوں سے بول کر چندہ جمع کرالیتے جیسے شوکت خانم کے لیے خود پوری دنیا کا چکر لگاکر جمع کیاتھا۔ہمارے وزیراعظم سمیت باقی پارٹیوں کے لیڈر صاحبان کو تو فرصت ہی نہیں مل رہی کہ وہ بھی اُدھر کا رخ کرسکیں۔ ابھی تک پنجاب حکومت ہی واحد حکومت ہے جس نے ان کے لیے پانچ پانچ لاکھ روپے مالی امداد کا اعلان کیا ہے اور وفاقی حکومت توشائد کسی انتظار میں ہے اور دیکھو وہ ان کے خاندان کے ساتھ کیا کرتی ہے۔

یہ فوجی جوان پنجاب کے سپاہی نہیں ہیں بلکہ یہ پورے پاکستان کی فوج کے جوان ہیں اور ان کی خبر گیری کرنا بلوچستان، خیبر پختونخواہ، سندھ اور گلگت بلتستان کی ذمہ داری میں شامل ہے۔مگر یہاں پر بھی سیاست چمکائی جارہی ہے۔ باقی کسی صوبے نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔اب ذرا میاں صاحب کی باتوں کا ذکر ہوجائے جو انہوں نے میڈیا سے کی۔ جب ہم نے نواز شریف کا بیان پڑھا تو بڑی حیرت ہوئی کہ میاں صاحب نے تو فوج کو واپس بلانے کا مطالبہ بھی کر دیا اور اس میںپہل بھی پہلے ہم کوکرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔میاں صاحب ایک مستند سیاستدان بن کر ابھر ے ہیں مگر ان کے اس بیان نے تو عوام کو کچھ اور سوچنے پر مجبور کر دیا۔ پتہ نہیں پاکستا ن کے سیاستدانوں کو بھارت میں کیا نظر آرہا ہے یا پھر کیا خوف ہے جس کی وجہ سے جس کو دیکھو بھارت کا راگ الاپ رہا ہے۔ صدر صاحب بھارت کا دورہ کررہے ہیں، کابینہ اور وزیر خارجہ اس کو پسندیدہ ملک قرار دے رہی ہیں اور نواز شریف فوج بلانے میں پہل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔پاکستان کی عوام کو پتہ ہے کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اور وہ پاکستان کو ختم کرنے کے در پر ہے اور ہمارے ملک کے سیاستدان اس کی حمایت میں لگے ہوئے ہیں۔ مسئلہ فوجوں کے انخلاء کا نہیں ہے مسئلہ وطن کے دفاع کا ہے۔

مانا کہ سیاچین پر گھاس تک نہیں اگتی لیکن پورے پاکستان میں جو کچھ اگتا ہے اس کے لئے پانی کے چشمے سیاچین سے ہی نکلتے ہیں۔ آپ اپنی فوجیں سیاچین سے یکطرفہ بلائیں یا دو طرفہ مگر یہ بتائیںکہ اپنے پانیوں کی حفاظت کہاں سے کریں گے۔ امریکی ضمانتیں اور بین الاقوامی عدالتیں بھارت کو دریائے چناب اور جہلم پر ڈیم بنانے سے نہیں روک سکے تو اب آپ کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ آپ کے پیچھے آجانے کے بعد بھارت کارگل کا بدلہ چکانے کے لئے آپ کے شمالی علاقہ جات آپ سے کاٹ کر رکھ دے۔ شاہراہ قراقرم پر قبضہ کر لے اورہمارے حکمران پھر بھاگ کر امریکی صدر کے آگے کھڑے ہوں اورآپ کی کمزوری پر عالمی طاقتیں پرزور قہقے لگا رہی ہوں۔ خدا جانے ہمارے ملک کے سیاستدانوں کو بھارت پر اس قدر اعتماد کیوں ہونے لگا ہے جبکہ ابھی بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم پاکستان آرہی تھی اور اعلان بھی کردیا مگر بھارت ناپاک دشمنی نے اس کو پاکستان نہ آنے دیا۔ اگر ہمارے سیاستدانوں کو سیا چین پرآنے والے خراجات کا اتنا فکر ہے تو پھر یہ لوگ اپنی شاہانہ زندگی طرف بھی دیکھ لیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں کہ کس پر زیادہ خرچہ ہوتا ہے اور کس پر خرچ کرکے فائدہ ہے اور کس کا نقصان آخر میں اتنا کہوں گا اپنے سیاستدانوں سے کہ ایسی باتیں اپنے منہ سے نہ نکالیں جس سے پاکستان کو جھکنا پڑے یا کوئی اس کو ہماری کمزوری نہ سمجھ لے اور انڈیا جیسے دشمن کی تو آنکھوںمیںآنکھیں ڈال کر بات کرنی چاہیے کیونکہ اس کو تو ابھی تک جنگی جنون چڑھا ہوا ہے اور آئے روز نئے سے نئے ایٹمی میزائل کے تجربات کرنے میں مصروف ہے۔ہمارے سیاستدان دوستی کی پینگیں بڑھانے کے بیان داغ رہے ہیں اور بھارت جواب میں میزائل کے تجربات داغ رہا ہے ۔

تحریر : عقیل خان