صبح نہیں ہو گی کبھی

subah nahin ho gi

subah nahin ho gi

صبح نہیں ہو گی کبھی، دل میں بٹھا لے تو بھی
خود کو برباد نہ کر جاگنے والے تو بھی

میں کہاں تک تری یادوں کے تعاقب میں رہوں
میں جو گم ہوں تو کبھی میرا پتہ لے تو بھی

اک شبستانِ رفاقت ہو ضروری تو نہیں
دشتِ تنہائی میں آ جشن منا لے تو بھی

لفظ خود اپنے معنی کو طلب کرتا ہے
دل کی دیوار پہ اک نقش بنا لے تو بھی

ٹوٹ جائیں نہ رگیں ضبطِ مسلسل سے کہیں
چھپ کے تنہائی میں اشک بہا لے تو بھی

عہدِ حاضر میں تو پندار کی قیمت ہی نہیں
کوئی تیشہ نہ اٹھا، کاسہ اٹھا لے تو بھی

میں نے اک عمر کے خوابوں کو ترے نام کیا
اپنے احساس کو کر میرے حوالے تو بھی

میں بھی دل میں تری تصویر چھپائے رکھوں
اپنے ہونٹوں سے مرا نام مٹا لے تو بھی

نوشی گیلانی