طاق پر جزدان میں لپٹی دُعائیں رہ گئیں

distroyed houses

distroyed houses

طاق پر جزدان میں لپٹی دُعائیں رہ گئیں
چل دیے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں

ہو گیا خالی نگر بلوائیوں کے خوف سے
آنگنوں میں گھومتی پھرتی ہوائیں رہ گئیں

درمیاں تو جو بھی کچھ تھا اسکو وسعت کھا گئی
ہر طرف ارض و سماں میںانتہائیں رہ گئیں

شب گئے پھرتی ہے غازہ مل کے بوڑھی خواہشیں
شہر کی سڑکوں پہ اب تو بیسوائیں رہ گئیں

کھولتا ہوں یاد کا در اسمِ اعظم پھونک کر
اس کھنڈر میں جانے اب کتنی بلائیں رہ گئیں

زندگی چلتی ہے کیسے ناز نخرے سے نسیم]
اس طوائف میں وہی پہلی ادائیں رہ گئیں
افتخار نسیم