عشق جب زمزمہ پیدا ہو گا

Nasir  Kazmi

Nasir Kazmi

عشق جب زمزمہ پیدا ہو گا
حسن خود محو تماشا ہو گا

سن کے آوازہ زنجیر صبا
قفس غنچہ کا دروا ہو گا

جرس شوق اگر ساتھ رہی
ہر نفس شہپر عنقا ہو گا

دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

کون دیکھے گا طلوع خورشید
ذرہ جب دیدئہ بینا ہو گا

ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا

پھر سلگنے لگا صحرائے خیال
ابر گھر کر برسا ہوگا

پھر کسی دھیان کے صد راہے پر
دل حیرت زدہ تنہا ہو گا

پھر کسی صبح طرب کا جادو
پردئہ سب سے ہویدا ہو گا

گل زمینوں کے خنک رمنوں میں
جشن رامش گری برپا ہو گا

پھر سر شاخ شعاع خورشید
نکہت گل کا بسیرا ہو گا

اک صدا سنگ میں تڑپی ہو گی
اک شدر پھول میں لرزا ہو گا

تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے
چاندنی رات نے دیکھا ہو گا

دیکھ کر آئینہ آب رواں
پتا پتا لب گویا ہو گا

شام سے سوچ رہا ہوں ناصر
چاند کس شہر میں اترا ہو گا

ناصر کاظمی