غم ہائے روزگار میں الجھا ہوا ہوں میں

drinking ill man

drinking ill man

غم ہائے روزگار میں الجھا ہوا ہوں میں
اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں

ہاں اس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا
کیا اس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں

کربِ غم شعور کا درماں نہیں شراب
یہ زہر بے اثر ہے اسے پی چکا ہوں میں

اے زندگی بتا کہ سرِ جادئہ شباب
یہ کون کھو گیا ہے کسے ڈھونڈتا ہوں میں

اے وحشتو! مجھے اسی وادی میں لے چلو
یہ کون لوگ ہیں یہ کہاں آ گیا ہوں میں

شعر و شعور اور یہ شہرِ شمار و شور
بس ایک قرض ہے جو ادا کر رہا ہوں میں

میں نے غمِ حیات میں تجھ کو بھلا دیا
حسنِ وفا شعار بہت بے وفا ہوں میں

عشق ایک سچ تھا تجھ سے جو بولا نہیں کبھی
عشق اب وہ جھوٹ ہے جو بہت بولتا ہوں میں

دنیا میرے ہجوم کی آشوب گاہ ہے
اور اپنے اس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوں میں

جون ایلیا