مر جائوں گا لیبیا نہیں چھوڑوں گا

libya

libya

ستمبر 642ء میں محبوب خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے حضرت عمر بن العاص کی سربراہی میں رومی سلطنت کے مقبوضہ علاقے لیبیا کا رخ تو ان اللہ کے دوستوں کے سامنے مضبوط ترین قلعے خس وخاشاک کی مانند سرنگوں ہو گئے۔لیبیا فتح ہوگیا مگر رومی سلطنت کی وفادار فوج پیہم مزاحمت کرتی رہی تاکہ کسی نہ کسی صورت میں لیبیا پر دوبارہ رومی جھنڈا لہرایا جاسکے۔بالا آخر حضرت عبداللہ بن سعد کی قیادت میں 647ء عیسوی میں لیبیا اسلامی سلطنت کا حصہ قرار پایا۔مسلمانوں کے مکمل قبضہ کے کم وبیش تیرہ برس بعد 663میں بربروں نے کچھ قوت پکڑی اورمعمولی  مزاحمت کا آغاز کیا جسے کا عقبہ بن نافع نے فوری سدباب ل کر دیا۔میرے پیارے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی اعلی تربیت کا اثر تھا کہ لیبیا پر اصحاب اور ان کے زیر تسلط امراء نے اس طرز پر حکومت کی کہ لیبیا کہ باشندے اپنی زبان’تہذیب و تمدن الغرض سب کچھ بھلا کر اسلام کے سایہ رحمت میں آگئے اور آج لیبیا کا شمار عرب دنیا میں کیا جاتا ہے۔تاریخ میں کسی حکمران طبقے کہ زیر سایہ ایسی تبدیلیاں بہت کم نظر آتی ہیں۔آنکھ رکھنے والوں کیلئے یہ کافی ہے۔اس اٹھارہ لاکھ مربع کلومیڑ پر پھیلے  لیبیا پر اٹلی اور یونان بھی قابض رہے اور جنگ عظیم دوم کے بعد لیبیا تاج برطانیہ کے زیر تسلط آگیا۔جس کا قبضہ 1943سے 1951تک رہا۔1951میں لیبیا کے بادشاہ ادریس نے خودمختاری کا اعلان کیا اور یوں لیبیا پر برسوں سے قائم استعماری قوتوں کا حصار ٹوٹ گیا۔کسی حد تک اسلامی کے چاہنے والے اس خطہ میںپھر  چھا گئے ۔اسی دوران سات جون 1942کو سرت کے قریب ایک صحرا ئی علاقہ میں معمر  ابو محمد منیار القذافی نے خانہ بدوشوں کے گھر جنم لیا۔1956کے نہرسویز کے تنازعہ میںمغرب اور اس کے لے پالک کے خلاف مظاہروں میں قذافی کی شخصیت سامنے آئی۔اور پھر یکم ستمبر 1969کو شاہ ادریس کا تختہ الٹ کر قذافی اقتدار پر قابض ہو گئے ۔ 1974میں قذافی لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں پیش پیش تھے ۔مغرب اور اسرائیل کے خلاف نفرت آمیز الفاظ استعمال کر کے عوام اور مسلمانوں کے دلوں میں جگہ بنانے والے قذافی نت نئے انداز سے بھی لوگوں کو اپنی جانب راغب کرنے کا ہنر خوب جانتے تھے۔ایک دفعہ ایک معروف صحافی خاتون ان سے انٹرویو لینے گئیں ۔کمرہ کا دروازہ کھلا اور سفید گھوڑے پر فوجی وردی میں ملبوس قذافی نے اندر داخل ہوتے ہی ننگی تلوار لہرا کر کہا پوچھو ؟سوال کرو ؟۔ان کی زندگی کا ایک اور عجیب پہلو چالیس خواتین کو اپنی سیکورٹی پر معمور کرنا ہے ۔وہ ہمیشہ اپنی اسی سیکورٹی سے مطمئن رہے۔بھٹو کے قریبی ساتھی تھے اور بھٹو کو ایک خفیہ پیغام بھجوانا بھی ان سے منسوب ہے ۔جس میں ان کو یہ پیش کش کی گئی تھی کہ آپ کو ایک چھوٹے سے ریسکیو ٹائپ آپریشن کے ذریعے رہا کروا لیا جائے گا۔مگر ذوالفقار علی بھٹو نے انکار کردیا۔ 1984میں قذافی نے اسکاٹ لینڈ کی فضامیں پرواز کرتے ہوئے ایک مسافر طیارے کو مار گرایا۔جس کے نتیجے میں 270ہلاکتیں ہوئیں ۔پھر 1988میں فرانس کے جہاز کو تباہ کیا ۔جس میں 170مسافر سوار تھے۔نتیجے کے طور پر لیبیا کی سرزمین کوحددرجہ اقتصادی پابندیوں سے نبردآزما ہونا پڑا اور لیبیا سفارتی سطح پر بھی تنہائی کا شکار ہوا۔پھر اس کے بعد 2003میں یک لخت قذافی کا جھکائو مغرب کی جانب بڑھ گیا۔نہایت عجز وانکساری کے ساتھ معذرت کی گئی اور طیاروں کے لواحقین کو اربوں ڈالر معاوضے میں ادا کیئے گئے ۔اسکے ساتھ ہی لیبیا کا ایٹمی پروگرام زمین بوس ہو گیا۔یہ تھا وہ لمحہ جب قذافی کا زوال شروع ہوا۔اپنے عوام اور پاکستان کو ان مرحلات میں مشکل میں ڈالنے والے قذافی مغرب کی تقلید کرنے لگ گئے۔ رعایا آسائشوں کے باوجود قذافی کی شخصیت پرستی اور آمرانہ طرز حکومت سے تنگ تھی لیکن مغرب نوازی نے اس پر مہر ثبت کر دی۔ مکافات عمل کا بے رحم لشکر تیونس اور مصر کی دیوار پھلانگ کر لیبیا میں بھی وارد ہو گیا۔جس اپنے اور پرائے سب نے خوب مدد دی اور اچھالا بھی۔ایک ایک کرکے لیبیا کہ تمام علاقے اس مرد آہن کی مٹھی سے ریت کے ذروں کی طرح سرکتے گئے۔انسانی حقوق کے کارکن کی گرفتاری سے طول پکڑنے والا یہ طوفان نہ تھما اور 27فروری کو عبوری انقلابی کونسل قائم ہو گئی۔
نیٹو اور فرانس نے بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالا اور انسانوں کا خون کر کے خوب ثواب کمایا۔آخر کار اپنے آپ کو افریقہ کا رہنما کہنے والے قذافی کی قوت خزاں رسیدہ پتوں کی مانند لرزنے لگی۔وہ قذافی جس نے حزب التحریر سمیت اپنے ہر مخالف اور باصلاحیت لیبیائی گروہوں کو کچل دیا تھا تھر تھر کانپنے لگا۔لیکن بھٹو کے ساتھی نے اپناکہا ہوا یہ قول سچ ثابت کر دکھایا کہ ”مر جائوں گا مگر لیبیا نہیں چھوڑو ں گا”۔یوریپین اور یوریپین نژاد میڈیا نے بارہا ڈھنڈورا پیٹا کہ قذافی لیبیا سے فرار ہوکر وینز ویلا چلے گئے ہیں ۔لیکن سب جھوٹ ثابت ہوا۔
حضرت علی کا فرما ن ہے ”کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں ”۔بالاخر سرت میں ہی انقلابی فوج کے ہاتھوں قذافی اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔1900سے لے کر اب تک وہ طویل حکمرانی کرنے والے چوتھے ایسے رہنما تھا جن کا شاہی خاندان سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔انہوں نے 41سال11ماہ اور22دن حکومت کی ۔لیبیا سے روزانہ اٹھارہ لاکھ بیرل تیل نکالنے کے باوجود لیبیا کی عوام کو جدید ٹیکنالوجی سے ہمکنا ر نہ کر سکے۔اپنے ذات کے خول میں مقید رہنے والے تمام آمروں کو تاریخ نے ہمیشہ روند دیا۔لیکن قذافی کے بے رحمانہ  اور سفاکانہ قتل کے بعد یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب تک وہ استعمار کے مخالف رہے محفوظ رہے لیکن جوں ہی انہیں اچھا بچہ بننے کی سوجھی وہ صفحہ ہستی سے بھی مٹ گئے۔مبادا کہ اس کے سرپرستوں کو ابھی تک پہلی اسلام سربراہی کانفرنس نہ بھولی ہو۔کیونکہ شاہ فیصل سے شروع ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کا وہ آخری شکار تھے۔وہ دنیا میں واحد آمر تو نہ تھے؟ انسانی حقوق کی پامالی فقط لیبیا میں تو نہیں کی جا رہی تھی ۔کشمیر پر ڈھائے جانے والے مظالم پر آخر دنیا کا چوہدری کیوں ایکشن نہیں لیتا۔اب قذافی نے عدم آبا د ہونے کے بعد اس کے حضور پیش ہونا ہے جو غفور بھی ہے اور رحیم بھی ۔وہ بڑا ہی مہربان ہے۔اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ وہ قذافی کو بخش دے اور خدا کرے کہ پھر کسی مسلم ملک میں کوئی آمر جنم نہ لے تاکہ سوا ارب مسلمان سکون کی زندگی بسر کر سکیں ۔اسلام خوب پھلے پھولے۔اور خدا کرے قذافی کے بعد لیبیا متحد بھی رہے کیونکہ لیبیا میں قبائلی منافرت کے بھانبڑ موجود ہیں جو کسی لمحہ بھی بھڑک سکتے ہیں یا بھڑکائے جا سکتے ہیں۔اپنے تمام تر کوتاہیوں کے ساتھ قذافی کا یہ وصف ضرور تھا کہ وہ لیبیا کو متحد رکھے ہوئے تھے۔ افقِ گفتگو۔از ۔ایس ۔یو ۔شجرssbox381@gmail.com