میں بد ترین سیلاب میں اور دل برداشتہ بھی ہوگیا

Asif Yasin

Asif Yasin

میرے کالم پاکستان بمعہ کشمیر کے مختلف اخبارات میں لگتے رہتے ہیں ۔ چند ہفتے لکھنے سے قاصر ہو گیا ۔تو مجھے اخبارات ، آن لائن اخبارات کے درجنوں چیف ایڈیٹر و ایڈیٹرز صاحبان نے SMS,Email، فون کالز کرکے کالم نہ بھیجنے کی وجہ دریافت کی اور سینکڑوں قارئین اکرام نے بھی SMS,Emailفون کالز کے ذریعے اگلے کالم کی تاریخ پوچھی ۔کسی نے غصے میں SMSکیا تھا کہ ہم اخبار آپکے کالم کے لیے لیتے ہیں۔اور آپ کے کالم نہیں آتے ہیں۔ہمارے پیسے ضائع ہو تے ہیں۔میں اس کالم کے ذریعے تمام حضرات کا انتہائی مشکور ہوں کہ جنھوں نے مجھ سے یامیرے کالموں سے محبت کا اظہارکیا ۔

قارئین و چیف ایڈیٹرز کے سامنے حقیقت پیش کرنا ضروری سمجھتاہوں ، نہ لکھنے کی وجہ صرف ایک ہی ہے۔ستمبر 2012 ء پہلی دہائی میں میرے شہر ڈیرہ اللہ یار جعفرآباد کو بارش و سیلاب نے اپنی بدترین لپیٹ میںلے لیا ۔یہ پہلی بار نہیںبلکہ 2010ء میں بھی سب سے زیادہ متاثرہ شہر تھا ۔اس بار بھی پانی شہر میں 4سے 5فٹ بلند سطح پر ٹھہرا شہر کے اردگرد علاقوں میں 7سے 9فٹ بلندی پر گزر رہاتھا ۔جانی و مالی نقصان کی ازالہ کرنا ناممکن ہے۔

400 سے700کے درمیان جانی نقصان ہوا ہے ، مالی نقصان انتہائی زیادہ ہوئی ہے تمام علاقوں میں چاول کی فصلیں تیار ہونے والی تھیں مگر صفہ ہستی سے مٹ گئے ہی سیلاب کے ایام جاری ہی تھے ۔سیلابی ریلا جعفرآباد میں تباہائیاں پھیلا تاجارہا تھا ۔میں اپنے گھر میں پانی سے پریشان سامان اِدھر سے اُدھر کر تا جارہا تھا ۔جہاں پانی ذرا کم ہو جاتا اپنے صندوقوں کو وہاں لے جاتا ۔اتنے میں میرے موبائل پر ایک فون آیا کہ سر آصف یٰسین لانگو صاحب میں اللہ ڈنہ بول رہا ہوں آپ کہا ںہو ؟میں نے جواب دیا تو کہنے لگا سرمیں آپکے کالم پڑھتاہوں بہت اچھے لکھتے ہو اور حقیقت بھی لکھتے تو آج میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتا ہوں پلیز مجھ سے ملیں ۔حکم کریں میںنے کہا تو پھر کہنے لگا فلاں خان کو جانتے ہو وہ میرا کزن ہے ۔میں نے کہا وہ میرادوست ہے ۔ تو وہ میرے بتائے ہوئے ایڈریس پر وقت مقرر پر پہنچ گیا ۔اک خوبصورت سا نوجوان تھا مجھے چند فوٹو دکھائے جن میں ایک FC، پولیس کے اہلکار سینکڑوں عورتوں و مردوں پر لاٹھی چارج کرکے انھیںکہیں بھگا رہا ہے ۔تو مجھے موٹر کار پر ڈیرہ اللہ یار سے 20کلومیٹر دور ڈیرہ مراد جمالی (نصیر آباد ) لے گیا ۔

وہاں ایک رائیس مل میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین و مرد کھڑے تھے جو پانی کی لہر کی طرح ادھر سے اُدھر جا رہے تھے جن کے پیچھے چند سیکورٹی اہلکار تھے ۔ہم ایک طرف ٹھہر گئے ۔انتہائی گرمی تھی ۔رائیس مل میں ڈیرہ اللہ یار جعفرآباد کے لاکھوںسیلاب متاثرین کے کیلئے PDMAکی طرف سے راشن جمع تھا ۔ رائیس مل کے اندر ضلعی انتظامیہ کے بابو رفیق ،بابو نوراحمد اور بابو عزیزاللہ و دیگر اسٹاف کے ارکان موجود تھے جن کے ساتھ درجنوں مزدور بھی تھے۔پولیس اور FCکے درجنوں اہلکار بطور سیکورٹی کھڑے تھے ۔اندر بڑے بڑے کنٹینر کھڑے تھے ۔جہاں سے راشن ہال میں رکھا جارہا تھا ۔دوسری جانب کہیں ٹریکٹر ٹرالی ،ویگن ،سوزکی و رکشے کھڑے تھے جہاں سے راشن لوڈکر کے شہر کی طرف لے جایا جارہا تھا ۔میں صرف ایک گھنٹہ ٹھہر ا تو میں حیرانگی کے ساتھ اشک بار ہوگیا ،مجھے انتہا ئی دکھ ہو رہا تھا میرہ برداشت سے باہر تھا ، مجھے بھی راشن کی ضرورت تھا مگر لاٹھی کھانے ہر گز شوق نہیں تھا جس وجہ سے میں ضلعی انتظامیہ کے راشن کے بجائے فاقہ سے مرنا قبول کر کے نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا ۔

Lathi Charge

Lathi Charge

پی ڈی ایم اے کی امدادی راشن اور تمام خیمے ضلعی انتظامیہ کی حکم پر غریب،مفلس ،بیوہ ،یتیم اور سیلاب متاثرین جن کے پاس ایک وقت کی روٹی دستیاب نہیں اُن کو دینے کے بجائے سیکورٹی اہلکار انھیں لاٹھی پہ لاٹھی ما رہا تھے۔ اتفاق سے لاٹھی 60سے 90عمر کے ضعیف مرد و خواتین پر برس رہی تھی ۔روڈ پر گرتے اور گالیاں دیتے یہ بوڑھے بوڑھیاں مجھے آنسو زدہ کررہے تھے۔سیکورٹی اہلکار امیروںکے بجائے غریبوں کو مارپیٹ کر کے بھگا رہا تھا ۔

لیکن خیموں اور خوشک راشن کے پاس تو شہر کے معروف تاجر ،سیاسی شخصتیں اور ضلعی اداروںکے افسران و اہلکار جو گاڑیوں میں راشن بھرکر جارہے تھے ۔راشن کی تقسیم کے لیے انتہائی غلط طریقہ اختیار کیا گیا تھا ۔جن کو راشن دینا تھا اُن پر لاٹھی برس رہی تھیں۔ اور جنہیں نہیں دینا چاہیے تھا۔ انھیں گاڑیاں بھر بھر کر دے رہے تھے ۔ شہر کے امیروں سے ذکوٰة وصول کرنے کے بجائے ضلعی انتظامیہ امیروں ،سرداروں ،جاگیرداروں ،صحافیوں ،پولیس افسران،سیاسی سماجی تنظیموں اور بااثر من پسند شخصیات کو سینکڑوں راشن دیتاہے ۔حق دار غریب و مفلس ان کے دفتروں اور وئیر ہائو س کے چکر لگاتے لگاتے بے ساختہ اور مایوس ہو جاتے ہیں۔ غریبوں کی عزت نفس مجروح کی جارہی تھی مگر نام نہاد ،ناپاک سرکاری و غیر سرکاری نظمیں میڈیا کے سہارے زیادہ بک بک تو کرتے ہیں مگر انصاف اور بد سلوکی انہیںنظر نہیں آتی ہے ۔

ماضی کی طرح راشن خیمے اور تمام امداد لیکر سرکاری وغیر سرکاری امداد امیروںاور بااثر شخصیات کے گھروںکی زینت ضرور بنے گی اور غریب حقدار لوگ ترستے رہیںگے۔حکومت کی امداد نظر نہیں آتی اوانتظامیہ کو کام کرنے کا سلیقہ ہی نہیں۔ہم چاروں طرف دریا نما پانی کے باوجود پانی کو پینے کیلئے ترستے ہیں۔کیونکہ پینے کا پانی نہیں ملتااور سیلابی پانی انتہائی بدبودار اور آلودہ ہوتاہے۔جعفرآباد دنیا کے گرم ترین علاقوں میں شمار ہوتاہے۔ سیلاب متاثرین کھانے،پینے،رہنے اور سونے کے لیے ترستے ہیں۔ حکومت کوئی تعاون نہیںکرتی ۔تمام سرکاری وغیر سرکاری ادارے، سیاسی تنظمیں اس مشکل کھڑی میں نظر نہیں آتے ہیں۔

بعدازاں آکر کرپشن ،بے غیرتی اور بد سلوکی کا بازار گرم کرتے ہیں ۔راشن خیمے پانی کی ضرورت کے وقت مہیا نہیںکرتے ہیںجب لوگ اپنے گھروںمیںبحال ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔تب آکر خیرات بھی ظلم کے نظام کے ساتھ تقسیم کرتے ہیں۔ضلعی انتظامیہ کٹھ پُتلی بن جاتی ہے ۔ذکواة دینے والے ذکواة موصول اور لینے والے ذکواة دیتے ہیں ۔یہ ایک عجیب عجوبہ وتعجب ہے ۔انسانیت کی تباہی جعفرآبادمیں نظر آتی ہے ۔سارا نظام درہم برہم ہو جاتاہے ۔ماضی کی طرح اس بار بھی سرکاری امداد کرپشن کی بھیت چڑھ جائیگی ،سیاستادان اپنے کارکنوں اور ضلعی انتظامیہ اپنے افسران اور اسٹاف کے ساتھ ملی بھگت میں اربوں روپیہ کی کرپشن کریگی۔

پی ڈ ی ایم اے نے اربوں روپیہ کی خیمے ، راشن روانہ کیا ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اربوں روپیہ صرف کاغذی ریکارڈ میں ضرور ہونگے مگر کروڑوں کی امداد ضرور پہنچی ہے لیکن سارا کچھ کرپشن کی بھیت میں چڑھ چکی ہے ، میں وضاحت کرتا چلو ! کہ امداد غریبوں ، مفلسوں ، یتیموں ، اور انتہائی متاثرین میں نہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ نے خورد برد کی ہے اور امداد امیر گھروں میں اپنی خوش آمد کے لیے بھیجی ہے جن پر خیرات لینا حرام ہے جن کے پاس سوائے جان کے کچھ نہیں بچا ان کو ضلعی انتظامیہ نے لاٹھی چارج کی ہے۔

NDMA

NDMA

ایک مقامی صحافی کو جھٹ پٹ کے اسسٹنٹ کمشنر نے کوریج کرنے سے روکا اور تشدت بھی کی ہے اس کا متن یہ ہے کہ چوری اور سینہ زوری ۔خیر این جی اوز میں کسی حد تک عوام میں تقسیم ہوتی ہے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ این جی او سے غریب لاٹھی نہیں کھاتے، انکی عزت نفس کو مجروع نہیں کیا جا تا ہے PDMA، NDMA اور باقی وہ تمام امداد جوسیلاب متاثرین کو تقسیم کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کے سپرد کیے جاتے ہیں ۔ اس میں کرپشن کی جاتی ہے اور راشن سے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے اہلکار رات کے اندھیرے میں تمام قیمتی اشیا ء نکال لیا کرتے ہیں اور من پسند حضرات کو رات کے اندھیرے میں چوروں کی طرح امداد سپلائے کرتے ہیں، انکی تمام امداد غیر ضروری افراد کو مل رہی ہے اور حق داروں کی عزت نفس مجروع کیا جاتا ہے جس کی زمہ داری PDMA اور ضلعی انتظامیہ کی ہے

گزشتہ ہفتے ولڈفوڈ پروگرام (WFP) کی تعاون کے ساتھ نیشنل ریلیف کمیٹی (NRC)نے دو لاکھ کے آبادی والی شہر میں صرف 2000 خاندانوں میں پندرہ یوم کا خوراک تقسیم کیا جہاں تک عوام کی رائے کی بات ہے سرکاری اہلکاروں کی نسبت نیشنل ریلیف کمیٹی (NRC) کے کوارڈینٹر جمیل احمد محمد شہی نے اپنے ٹیم کے ہمراہ کافی احترام کے ساتھ امداد کی شفاف تقسیم کی ہے سرکاری اہلکاروں نے ہمیشہ عوام کو دھوکا دیا ہے مگر نیشنل ریلیف کمیٹی (NRC) نے گھروں میں دستک دیکر ٹوکن جاری کیے ہیں اور تمام ضروری امداد آ رام کے ساتھ بغیر کسی تکلیف کے تقسیم کر کے ان کی دل اور دعائیں جیت لیے ہیں۔

جہان تک میرا اپنا چشم دیدی کی توار ہے تو مجھے عوام کی رائے پر پورا یقین ہے میں نے خود نیشنل ریلیف کمیٹی (NRC) کی آفس اور تقسیم کی جگہ کا معائنہ کی تو مجھے بھی بہت خوشی ہوئی کہ نیشنل ریلیف کمیٹی (NRC) نے امداد دی کر غریبوں کی مدد کی ہے مجھے ضلعی انتظامیہ کی تمام امداد میں مکمل کرپشن نظر آئی ہے مگر نیشنل ریلیف کمیٹی (NRC) میں شفافیت دکھائی دی اور میں ولڈفوڈ پروگرام (WFP ( سے درخواست کرتا ہوں کہ نیشنل ریلیف کمیٹی (NRC) کی امداد کو بڑا کر عوام میں امداد کی تقسیم کو شفافیت کے لیے کردار ادا کریں قارئین اکرام میرے گھر میں 4سے 5فٹ پانی تھا۔ کمپیوٹر سے لیکر تمام اشیاء پانی میںبہہ گئے ۔PTCLسسٹم خراب تھا کیونکہ آفس میں بھی 6فٹ سے 5فٹ پانی تھا ۔راستے تقریباًبندتھے ۔جسکی وجہ سے رابطہ بند تھا میںاس لیے ایک مہینہ یا اس سے زیادہ کالم نہیں لکھ سکا ۔ آئندہ انشاء اللہ جاری رہے گا ۔میرے لیے اورمیرے شہر کیلیے دعا کریں کہ اللہ رحمت کی نگاہ سے رکھے۔ شہر کی رونق بحال ہونا باقی ہے ۔اب تھوڑا زیادہ نظام زندگی بحال ہورہی ہے ۔لوگ اپنے گھروںکی طرف واپس لوٹ رہے ہیں۔

یہ کالم ان تمام حضرات کے لیے لکھا ہے جس نے لکھنے کے لیے کافی اسرار کیا تھا میں اس کالم کو لکھنے اور شائع کرانے کے لیے اپنے شہر میں پی ٹی سی ایل کی اب تک عدم بحالی کی وجہ 150 کلو میٹر دور ضلع سبی میں سہولیات سے فائدہ اٹھا یا ہے۔ میرے اور میرے شہر ڈیرہ اللہ جعفر آباد کے لیے دعا کریں۔

تحریر : آصف یٰسین لانگو