میں کہ خود مقتول ہوں لیکن صفِ قاتل میں ہوں

Malala Yousafzai

Malala Yousafzai

ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ملالہ جیسی لاکھوں معصوم جانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف انسانیت کے نام نہاد علم بردار آوازیں کیوں نہیں اُٹھاتے؟ پوری دنیا میں روزانہ ہزاروں ”ملالہ”ظلم و تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ کہیں اُن کی عزت و ناموس کو تار تار کیا جاتا ہے تو کہیں ظلم و استحصال کی آگ میں اُن کی تمناؤں کو خاکستر کر دیا جاتا ہے، آخر تب بین الاقوامی ذرائع ابلاغ خاموش کیوں رہتا ہے؟حقیقت تو یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی سے مغربی میڈیا کو کوئی ہمدردی نہیں ہے بلکہ بعید نہیں کہ ملالہ پر جان لیوا حملہ مغربی طاقتوں کے اشارے پر ہی کیا گیا ہو۔

گزشتہ دنوں امریکہ میں ریلیز ہونے والی گستاخ آمیز فلم کے خلاف پوری دنیا کے مسلمانوں نے جس اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے وہ مغربی طاقتوں کو بھلا کیسے گوارا ہو سکتاہے؟ ملالہ پر حملہ مسلمانوں کے اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے اور عالمی پیمانے پر ہونے والے احتجاج کے رُخ کو موڑنے کی ایک منظم سازش ہے۔دنیا کے معلوم ہے کہ اسلام میں بچوں اور عورتوں پر حملہ حرام ہے۔ اسلامی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے تو کبھی غیر مسلم بچوں اور عورتوں پر بھی حملہ نہیں کیا بھلا وہ اپنی ہی ماں بہنوں کے خون کے پیاسے کیسے ہو سکتے ہیں؟ملالہ پر حملہ کرنے والے خود کو کتنا ہی اسلام کا پاسدار کہہ لیںاُن کی حرکات و سنکات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ امریکی و صہیونی آلۂ کار ضرور ہو سکتے ہیں، اسلام کے پاسدار ہرگز نہیں ہو سکتے۔

مسلم دانشوران کو سنجیدگی سے ایسی سازشوں پر غور کرنا چاہیے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے جامع حکمت علمی تیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ بعید نہیں کہ مغربی سازشوں کا شکار ہو کر ہم آپس میں ہی دست و گریباں ہو جائیں اور ہمارا خون یوں ہی
رائگاں بہتا رہے۔

تحریر : کامران غنی