ناقابلِ تسخیر قوم

pak amrirca

pak amrirca

پاک امریکی تعلقات کی افادیت کو یکھنا ہے تو ستمبر ١٩٦٥ کی جنگ کا تجزیہ کیجئے۔ آپ کو ہر شہ بڑی واضع، صاف اور شفاف نظر آجا ئے گی۔ ستمبر ١٩٦٥ کی جنگ ایک ایسی جنگ تھی جس نے پا کستانی قوم کے نئے تشخص کو پوری دنیا کے سامنے پیش کیا ۔١٩٦٥ کی جنگ نے یہ ثابت کیا کہ امریکی امداد ،دوستی اور اعانت نے پاکستان کو ایک مضبوط اور ناقابلِ تسخیر قوم بننے میں بڑا اہم کردار دا کیا تھا (اگر چہ  ١٩٦٥ کی جنگ میں پاک امریکہ تعلقات میں دراڑیں پڑ چکی تھیں لیکن اس وقت تک پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہو چکا تھا اور امریکہ پاکستان کو فوجی لحاظ سے ایک اہم قوت بنا چکا تھا)) بھارت کے سامنے پاکستان کی حیثیت ہی کیا تھی ۔ ایک ایسا ملک جس کے دونوں بازوئوں کے درمیان خود بھارت حائل تھا اور جو کسی بھی وقت اس کے ان دونوں بازئوں کو اپنی مکارانہ چالوں سے جدا کرسکتا تھا اور یہی سب کچھ اس نے ١٩٧١ کی جنگ میں کیا تھا جب مکتی باہنی کی مدد سے اس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کی آزاد ریاست بنا کر دم لیا تھا اور لہو میں ڈوبا سرخ  پرچم ان کے حوالے کیا تھا۔ا پنی طاقت کے زعم میں بھارت پاکستان کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھا ۔ بھاتی قیادت کے ذہن میں یہ بات بڑی شدت سے جاگزین ہو چکی تھی کہ پاکستان اپنے آپ کو قائم نہیں رکھ سکتا اس کا بکھرنااور ٹوٹنا اٹل ہے لہذا وہ انہی سازشوں میں مگن رہا کہ ا س کا شیرازہ کس طرح سے بکھیرنا ہے۔ بھارت اور پاکستان کا فوجی اور معاشی لحا ظ سے کو ئی موازنہ نہیں تھا۔ بھارت پاکستان سے چھ گنا بڑا ملک ہے۔ اس کے وسائل اور اس کے خزانوں کا پاکستان سے موازنہ کرنا احمقانہ حر کت ہو گی۔ بھارت کو اپنی بے پناہ قو ت کا اندازہ تھا تبھی تو اس نے ستمبر ١٩٦٥ کی جنگ میں پاکستان کے اہم ترین شہر لاہور کے جم خانہ کلب میں چائے پینے کا پروگرام تشکیل دے رکھا تھا۔ بھارت کا مفروضہ اور منصوبہ یہ تھا کہ پاکستا ن کو فتح کرنا چند گھنٹوں کا معاملہ ہے کیونکہ پاکستان میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ بھارتی فوجوں کی یلغار کے سامنے کھڑا ہو سکے۔بھارت ایسا سو چنے میں حق بجانب تھا کیونکہ اسے جس ملک سے مقابلہ درپیش تھا وہ کو ئی بڑی عالمی طاقت نہیں تھی اور نہ ہی کوئی جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ملک تھا ۔ اس کے ساتھ تو اس سے قبل بھی وہ کئی مکاریاں ،چالاکیاں، ھٹ دھرمیاں اور زیادتیاں کر چکا تھا اور اپنی مرضی کے نتائج حا صل کر چکا تھا اور اب کی بار بھی وہ اپنی مرض کے نتائج حاصل کرنا چاہتا تھا۔اسے جیت عزیز تھی اور جیت کے بارے میں وہ بڑی خوش فہمیوں کا شکار تھا۔ کشمیر، جونا گڑھ اور حیدر آباد پر بھارتی قبضہ کی بات کو ئی زیادہ پرانی بات نہیں تھی جس پر پاکستان بھارت کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکا تھا اور عالمی رائے عامہ نے بھی بھارتی توسیع پسندی پر بھارت کے خلاف کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا یا تھا ۔ تینوں بڑی ریاستیں تقسیمِ ہند کے اصول و ضوابط کے خلاف بھارت نے اپنے تسلط میں لے لی تھیں اور پاکستان منہ دیکھتا رہ گیا تھا لہذا بھارت کا پاکستان کو تر نوالہ سمجھنا آسانی سے سمجھ میں آسکتا ہے۔یہ بات بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا لہذا اسے ہڑپ کر جانا اور اس کے حصے بخر ے کرنا ہمیشہ سے اس کے توسیع پسندانہ عزائم کا ایجنڈہ رہا ہے اور اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل میں اس نے کبھی بھی حیل و حجت سے کام نہیں لیا ۔ ستمبر ١٩٦٥ کی جنگ بھی اسے ایجنڈے کی تکمیل کی جانب ایک قدم تھی لیکن اس کا کیا جائے کہ بھارت کو اس جنگ میں منہ کی کھانی  پڑی اور پاکستان کو ملیا میٹ کرنے کی اس کی ساری کوششیں نقش بر آب ثابت ہوئیں ۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کو بے شمار مالی، معاشی، معاشرتی اور اقتصادی مسائل نے گھیرے میں لے رکھا تھا ا ور اس کی فوجی اور معاشی حالت اتنی اچھی نہیں تھی کہ اسے بھارت کے مقا بلے میں میدانِ جنگ میں گھسیٹ لایا جائے۔عدمِ استحکام کے اسی مفروضے کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا اور اکھنڈ بھارت کا خواب اپنی آنکھوں میں سجا رکھا تھا لیکن اسے کیا خبر تھی کہ جسے وہ سوئی ہوئی قوم سمجھ کر حملہ آور ہو رہا ہے وہ قوم جاگ رہی ہے اور بھارت کو اس کی غنڈہ گردی کا مزہ چکھانے کے لئے بالکل تیار ہے۔وہ اپنے پچھلے حساب چکانے کے لئے بے تاب ہے اور بھارت سے گن گن کر کر سارے بدلے لینے کے لئے اسی وقت کی  منتظر ہے۔  حضرت علی شیرِ خدا کا قول ہے کہ میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا ۔ انسان منصوبے بناتا ہے لیکن کبھی کبھی یہ منصوبے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے بلکہ راہ میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔کوئی ان دیکھی قوت ہے جو ان منصوبوں کو اپنی منصوبہ بندی کی نظر سے د یکھتی ہے اور پھر ان کے رو بہ عمل ہونے کا حتمی فیصلہ صادر فرما تی ہے۔تاریخ کے اوراق قوموں کے عروج وزوال کی دا ستا نوں سے بھرے پڑ ے ہیں جس کا جی چاہے تاریخ کے اوراق پلٹے اور قوموں کے ابھرنے اور ڈوبنے کے سارے منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔یقین کیجئے تمام انسانی منصوبوں کو غارت کرنے یا تکمیل سے ہمکنار کرنے والی ایک ہی اعلی و ارفع ہستی اس کائنات کے اندر موجود ہے جسے ہم خدا کے نام سے پکارتے ہیں اور جو مکا فاتِ عمل کے اصولوں پر قوموں کے عروج و زوال کی داستان رقم کرتی ہے۔بھارتی منصوبہ لاہور میں چا ئے پینے کا تھا لیکن یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا کیونکہ پاکستان وہ قوم نہیں رہی تھی جسے بھارت نے ١٩٤٨ میں ناکوں چنے چبوائے تھے۔ یہ ١٩٦٥ تھا اور اب پاکستان ایک بڑی فوجی قوت تھا جس کا ادراک شائد بھارت کو نہیں تھا۔ لاہور کا دفاع کرنے کے لئے پاکستان نے بی آر بھی نہر کھود رکھی تھی بھارت تو اس نہر کو عبور نہیں کر سکا تھا اس نے پاکستان پر قبضہ کیا خاک کرنا تھا۔جذبہ شہادت سے لبریز پاکستانی فوج جب جدید اسلحے سے لیس ہو کر بھارتی فوجوں کے سامنے آئی تو بھارت کے اوسان خطا ہو گئے۔ انھوں نے یہ کب سوچا تھا کہ پاکستان اتنی بڑی فوجی قوت بن کر اس کے سارے منصوبوں کو خاک میں ملا دے گا ۔میجر عزیز بھٹی اور ان کے رفقائے کار نے بھارتی یلغار کو جس طرح بی آر بی نہر پر روکے رکھا وہ خود ایک معجزے سے کم نہیں تھی ۔ ایک یہی وہ جنگ تھی جس میں پاکستانی پائلٹ ایم ایم عالم نے چند منٹوں میں بھارت کے پانچ جنگی طیارے گرا کر ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔ پٹھان کوٹ کا ہوائی اڈہ  تباہ کرنے کا سہرہ بھی پا کستانی پائلٹوں کے سر تھا جنھوں نے بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی ۔ جدید اسلحہ اور منہ زور جذ بے یکجا ہو جائیں تو فتح یقینی ہوتی ہے۔ ستمبر ١٩٦٥ کی جنگ کے وہ جوان اور غازی جنھوں نے بھارتی فوجوں کے دانت کھٹے کئے ان کی بسالتوں کی گواہی تو پاک دھرتی کا ذرہ ذرہ دے رہا ہے ۔خوش قسمت ہے وہ قوم جس میں ایسے بیٹے جنم لیتے ہیں اور خوش قسمت ہے وہ دھرتی جسے یہ نامور سپوت اپنا لہو خراج کرتے ہیں ۔ جذ بہِ شہادت جب رگ و پہ میں لہو بن کر دوڑ نے لگے  تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ایسی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور ١٩٦٥ میں پاکستانی فوج کا ایک ایک سپاہی خیبر شکن بھی تھا اور ان جذبوں کی عملی پیکر بھی تھا۔موت کی خو اہش جب زندگی کی خوا ہش پر غالب آ جائے تو انسان ایسی حیاتِ جاوداں سے آشنا ہوجا تا ہے جسے کبھی فنا نہیں ہوتا۔ روح حا لتِ رقص میں ہو تو پھر بدن کا لاشہ کہا ں گرتا ہے انسان کو اس سے کو ئی غرض نہیں ہوتی، فکر نہیں ہوتی اور ہوش نہیں ہوتا۔۔۔  ستمبر ١٩٦٥ میں بھارت کے سارے منصوبے خاک میں مل کر خاک ہوئے ۔ پاکستانی قوم فتح مند ہو کر نکلی اور اہلِ جہاں کو بتا دیا کہ بھارت نے جس قوم کو للکارا ہے اس کے لئے موت کی خوا ہش زندگی کی خواہش سے کہیں زیادہ قوی ہے۔ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو ہر ایک کے دل کی پکار تھی تبھی تو پوری قوم سر پر کفن باندھ کر اعلان کر رہی تھی کہ اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا۔جب کبھی کسی بھی قوم کے افراد موت کی تمنا کرنے لگ جاتے ہیں تو پھر اسے شکست د ینا کسی طاقت کے بس میں نہیں رہتا ۔ ایسے سر فروشوں کا مقدر ا گر ا ن کی یاوری کر جائے تو وہ مقامِ شہادت سے سرفراز ہو جا تے ہیں اور اگر بچ جائیں تو غازی کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں سعادت ہی ان کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔ سعادتوں کی آرزو مند پاکستانی قوم کو شکست دینا بھارت جیسے ملک کے لئے ممکن نہیں تھا اسی لئے تو اسے ہزیمت اٹھا نی پڑی تھی۔اس کی ساری آرزئویں خاک میں مل گئی تھیں اسے رسوا ہونا پڑا تھا اسے خاک چاٹنئی پڑی تھی اور دنیا کے سامنے بے آبرو ہونا پڑا تھا۔پاکستانی قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی د یوار بن کر بھارت کے سامنے کھڑی تھی اور بھارت کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہیں تھی۔ لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کی کہ پاکستان کو ایسی طاقت ور اور ناقابلِ تسخیر قوم بنانے میں اس کے کس دوست کا ہاتھ تھا۔کس کی دوستی اسے اس مقام تک لے آئی تھی جہاں پر وہ اپنے وقت کی سپر پاور سے ٹکرا جاتا ہے اوراسے ہزیمتسے دوچار کرتا ہے۔ اہلِ جہاں کی نظروں میں پاکستانی قوم سرخرو ہو کر نکلتی ہے اور ان سے اپنی جراتوں کی دادو تحسین وصول کرتی ہے۔  ١٩٤٨  میں بھی یہی قوم تھی اس وقت تو بھارت نے اسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھا تھا پھر ١٩٦٥ میں کیا نیا تھا جس نے سار ی بازی پلٹ کر رکھ دی تھی۔ قوتِ ایمانی اور جذبوں کی بات اپنی جگہ پر مسلمہ ہے اور اسے جھٹلانا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے لیکن سامانِ حرب کی کمی اور جنگی سازو سامان کی عدمِ دستیابی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنا اور اسے شکست دینا ممکن نہیں ہو تا۔دشمن کی ہیبت اور اس کی طاقت ایک مسلمہ حقیقت ہے جس سے انکار کرنا حکمت،دانائی اور دانش کے اصولوں کے منافی ہے ۔ اگر میری بات کا یقین نہیں تو یاد کیجئے حق وباطل کے سب سے پہلے معرکے جنگِ بدر کو جس میں رات کو ایک خوا ب کے ذریعے خدا ئے بزرگ و برتر نے مجاہدینِ اسلام کودشمن کی تعداد کم کر کے دکھائی تھی تاکہ صبح جب وہ میدانِ جنگ میں اتریں تو انھیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ دشمن تعداد میں ہم سے بہت زیادہ نہیں ہے لہذا اسے شکست دی جا سکتی ہے اور شکست دینے کا یہی یقین تھا جس نے ان میں فتح کی آرزو کو پروان چڑھایا اور ان کی اس آرزو کی تکمیل خدا نے اپنی معاونت سے پوری کی تھی ۔(جاری ہے)
تحریر : طارق حسین بٹ