ننھے نے سلیٹ خریدی

School Slate

School Slate

ننھا عزیز سر پر ایک غلیظ سا بستہ رکھے تھکے تھکے قدم اٹھائے ہولے ہولے گنگناتا جا رہا تھا۔
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا!
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا!
اس نے اچانک قدم روک لیے اور زمین کو بڑی سنجیدگی سے دیکھنے لگا پھر بستے کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر اوپر دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلکا نیلا آسمان جس پر دو چار چیلیں منڈلا رہی تھیں۔ اس نے مسکرانے کی کوشش کی مگر مسکراہٹ پر حیرت نے فتح پا لی۔
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا!

وہ اپنی انگلی دانتوں میں دبائے کچھ سوچتا ہوا قدم اٹھانے لگا۔ ایک دو بار مویشیوں کے گلوں نے اسے تکلیف دی اور وہ ایکطرف دیوار سے چمٹ کر ہر بیل کو خوف سے گھور گھور کر دیکھنے لگا۔ اچانک اس کی نگاہیں ایک جوان بیل کے مرمریں ایسے سفید سموں پر جم گئیں اور پھر اس نے اپنے میلے کچیلے پاؤں کیطرف دیکھا جو پرانی چپل کے مردہ روحوں کیطرح پڑے تھے۔

میل سے بھرے ہوئے بے جان اور بدصورت، اسکے ذرا سے دماغ نے ایک بہت بڑی تجویز سوچی۔ اگر اللہ میاں کہیں ملیں تو میں پہلے انہیں سلام کر کے ( کیونکہ ماسٹر جی نے بڑوں کو سلام کرنے کی زبردست تلقین کر رکھی تھی) یہ عرض کروں گا۔

اچھے اللہ، انسان کے پاؤں بڑے خراب ہیں۔ انسان چلتا پھرتا ہے، بھاگتا دوڑتا ہے تو اسکے پاؤں میں کنکر کانٹے چبھ جاتے ہیں۔ میل جم جاتا ہے، کئی بار زخمی ہو جاتے ہیں پاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ بیلوں کے سموں کیطرح ہڈی کے بنے ہوئے ہوں تو کیا حرج ہے؟

وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سامنے سے اسے گاؤں کا سب سے بڑا رئیس مشکی گھوڑے پر سوار نظر آیا۔ اسکی گرکابی سورج کی شعاعوں میں شیشہ کیطرح چمک رہی تھی اور جب وہ عزیز کے پاس سے گزرا تو آپ سے آپ کی عزیز کی نگاہیں اسکے پاؤں پر جم گئیں جو دودھ کیطرح سفید تھے۔

اس نے آسمان کیطرف دیکھا جیسے خدا سے اپنی غلطی واپس مانگ رہا ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انتے اچھے صاف پاؤں! سم کیا شے ہے انکے مقابلے میں! مگر میں بھی تو ایک انسان کا بیٹا ہوں۔ میرے پاؤں اتنے غلیظ کیوں ہیں؟ یہ الٹی بات اسکی سمجھ میں نہ آتی تھی وہ اس سوچ میں غرق آہستہ آہستہ جا رہا تھا کہ اچانک اسے راستہ میں ابھرے ہوئے ایک پتھر سے ٹھوکر لگی۔ بستہ اچھل کر دور کنکروں پر جا گرا اور اسکے دائیں پاؤں کے انگوٹھے سے خون جاری ہو گیا۔

bull

bull

اسے پھر ایک ثانیہ کیلئے بیل کے سموں کے فوائد کا خیال آیا مگر درد کی شدت نے اسکے دماغ میں ہلچل مچا دی۔ اس نے چیخ مار کر رونا چاہا مگر سامنے اسکول کے برآمدے میں ماسٹر جی کھڑے ہاتھوں میں کھریا مٹی کا ایک ٹکڑا اچھال رہے تھے۔

اسکی چیخ حلق تک آئی اور وہ کڑوی دوا کیطرح آنکھیں بند کر کے پی گیا۔ زخم پر مٹی ڈال کر اٹھا، بستہ کو چھوا تو اسکا دل دھک سے ہوا اور اسکا بستہ ایڑیوں میں جا گرا۔ اسکی سلیٹ ٹوٹ گئی۔

وہ ضبط نہ کر سکا اور پورے زور سے رونے لگا۔ ماسٹر جی بڑے رحمدل تھے۔ دوڑے دوڑے آئے، ننھے کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے اٹھ میں آج تجھے کچھ نہ کہوں گا۔ آج کاغذ پر سوال نکال لینا۔ کل سلیٹ خرید لانا اور ہاں اب لوہے کی سلیٹ خریدنا جیسے اصغر کی ہے۔

اصغر کی؟ عزیز نے سوچا، مگر اصغر کا باپ تو پٹواریوں کا بڑا افسر ہے اور میرا باپ پٹواری اور جنگل کے داروغہ کی گائے بکریوں کیلئے چارہ کاٹنے والا! لوہے کی سلیٹ پر تو بڑے پیسے خرچ آئینگے اور کل رات ہم لوگ پیسے نہ ہونے کیوجہ سے بھینسے کا گوشت نہ خرید سکے اب کیا ہو گا؟

اس نے بستہ سر پراٹھا لیا، غیر ارادی طور پر اسکی انگلیاں بستے کے اندر کھڑکھڑاتے ہوئے سلیٹ کی ٹکڑوں کو ٹٹولنے لگیں اور جب وہ لڑکوں کے جمگھٹ میں داخل ہوا جو اسکی چیخیں سن کر اسکول کے احاطے سے باہر اکٹھے ہو گئے تھے تو اسکا چہرہ فخر سے لال ہو گیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماسٹر اسکی انگلیاں تھامے ہوئے تھے، اور لڑکے بھی اس کیطرف ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے کیونکہ ماسٹر جی نے اس سے ہمدردی کی تھی۔

چٹائی پر بیٹھ کر اس نے بستہ سے سلیٹ کے ٹکڑے یوں نکالے جیسے اپنے سینے سے دل کے ٹکڑے نکال رہا ہے۔ ایک بڑا ٹکڑا اپنے پاس رکھ لیا اور باقی ایک جھاڑی میں پھینک آیا۔ ماسٹر جی سوال لکھانے لگے تو اس نے اپنی سلیٹ کیطرف جس کے بیشمار کنارے چاقو کی دھار کیطرح تیز تھے پھر پیچھے مڑ کر قطار کے آخری سرے پر اصغر کی سلیٹ کیطرف دیکھا، نئی سلیٹ جسکے ساتھ ایک مٹھی بھر اسفنج لٹک رہا تھا۔ اس نے نفرت سے اپنی ننھی سے ناک چڑھا کر اپنی سلیٹ پر زور سے تھوکا اور ہتھیلی سے مل کر سوال حل کرنے لگا۔

چھٹی کیبعد وہ گھر واپس آ رہا تھا کہ راستہ میں اپنا باپ مل گیا جو پٹواری کی گائے کیلئے چارہ کاٹ کر لا رہا تھا۔ اسکے رونگٹھے کھڑے ہو گئے اور پھر ہر رونگٹھے کی جڑ سے پسینہ پھوٹ نکلا، سلیٹ کے ٹکڑے کے تیز کنارے اسکے دماغ کو چیرنے لگے۔

باپ نے پوچھا، بیٹا چھٹی ہو گئی؟
ہاں ابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابا کہتے وقت اسکا حلق گھٹ گیا لیکن کھانسی کا بہانہ کر لیا اور پھر اس غیر متوقع کامیابی پر جی ہی جی میں خوش رہنے لگا۔
گھر جا کر سلیٹ پر خوب سوال نکالنا۔

سلیٹ تو ٹوٹ گئی، اس نے یہ جواب دینا چاہا لیکن اسکی نظر باپ کے بھاری اور کھردرے ہاتھ پر پڑ گئی جو اس کے گال پر پڑتا تھا تو اسے دن کیوقت بھی نیلے نیلے تارے نظر آنے لگتے تھے۔ اسلیے وہ خاموش رہا۔

اسکے باپ نے پیچھے مڑتے ہوئے کہا۔ سنا؟
ہاں۔
اسکا باپ پٹواری کے گھر کیطرف چلا گیا اور وہ اپنے گھر آیا۔ ماں کو دیکھ کر اسکا جی بھر آیا۔ آنسو اُمڈ آئے اور زاروقطار رونے لگا۔
کیوں میرے بچے، تیرے دشمن روئیں تو کبھی نہ روئے۔ میرے بچے کیا بات ہے؟
یہ کہتے ہوئے ماں بڑی محبت سے اسکے سر اور گالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔

ماں میری سلیٹ ٹوٹ گئی۔
اسکی ماں دھم سے دیوار سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گئی جیسے اسکا نالائق بیٹا عمر بھر کی کمائی دریا میں بہا آیا ہے۔ عزیز نے روتے ہوئے اپنی باچھوں کی پوری قوت سے ٹھوڑی کیطرف کھینچتے ہوئے کہا۔ اماں ابا کو نہ بتانا۔

ماں نے اپنے کنگن کو مضطربانہ انداز میں اپنی کلائی میں گھماتے ہوئے پوچھا۔ تو پھر کیا سر پر نکالے گا سوال؟َ اور عزیز سوچنے لگا کہ اگر سر پر سوال نکالے جا سکتے تو وہ روتا ہی کیوں؟ اسکی اماں کتنی بھولی ہے! آخر ان پڑھ ہے نا! پڑھی لکھی ہوتی تو اسے معلوم ہوتا کہ سوال سر پر نہیں صرف سلیٹ پر نکالے جا سکتے ہیں۔

اس دن نہ اس نے ماں سے گڑ مانگا، نہ جوار کے ہلکے پھلکے مرنڈے، نہ کبڈی کھیلی نہ آنکھ مچولی، اسکے ہمجولی اسکے پاس اکٹھے ہو گئے، مجبور کرنے لگا باہر چلو، لیکن ایک سیانا لڑکا پیچھے سے مجمع کو چیرتا ہوا آیا اور بولا، ارے یار بچے کو مت چھیڑو، اسکی سلیٹ ٹوٹ گئی ہے۔

عزیز کے دل پر جیسے کسی نے من بھر کا ہتھوڑا جما دیا۔ کانپ کر اٹھا کہ کہیں باپ تو نہیں آ گیا۔ لیکن بیل چارے کے انتظار میں کان کھڑے کیے دروازے کیطرف دیکھ رہے تھے اور ماں چولہے کے پاس بیٹھی ٹین کے پترے سے ساگ کر رہی تھی۔

بس وہ چارپائی پر پڑا رہا اور کچھوے اور خرگوش کی کہانی پڑھتا رہا۔ اسے کئی بار خرگوش پر غصہ آیا، کتنا غافل تھا خرگوش! ٹھیک اسطرح جیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے اسے کوئی مثال نہ مل سکی۔ اچانک اسکی اداس آنکھیں چمک اٹھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اسے اپنے آپ پر اتنا غصہ آیا کہ جی میں آئی، ابھی اپنے آپ کو قبر میں دفن کر دے اور اپنی موت پر ایک آنسو تک نہ بہائے اور پھر خوشی خوشی اسکول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکا دماغ گھومنے لگا۔

جتنا خیالات کا سلسلہ بڑھتا جاتا تھا اسکی وحشت میں اضافہ ہو جاتا تھا اور جب اندھیرا بڑھنے لگا اور اسکی ماں پکاری، جچے ادھر آ، روٹی ٹھنڈی ہو رہی ہے تو بے اختیار اسکے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے۔ ماں میری سلیٹ جو ٹوٹ گئی۔
کب؟ مگر یہ ماں کی آواز نہ تھی۔

اس نے سامنے دیکھا اسکا باپ بڑی بڑی آنکھیں نکالے اسکی طرف بڑھا آ رہا تھا، کب توڑی؟ اس نے اپنے آپ کو قبر میں دفن کرنے کی تجویز پر پھر سے غور کرنا چاہا، مگر باپ کے تھپڑ نے اسکے سلسلہ خیالات کو بری طرح منتشر کر دیا اور وہ اتنا رویا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا رویا کہ آخر اس رونے میں لطف آنے لگا۔ وہ اپنا رونا بند نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ اسطرح ماں کی تسلیوں کے رک جانے کا اندیشہ تھا۔

چپ کرتا ہے یا لگاؤں ایک اور؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکی آواز یوں رک گئی جیسے ریڈیو سے کسی ” میم کا گانا سنتے سنتے تنگ آ کر لوگ پیچ گھما دیتے ہیں۔

سلیٹ بھی توڑ آیا اور ریں ریں بھی کیے جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندھے تو سامنے دیکھ کر کیوں نہیں چلتا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہمیشہ تیری نظر آسمانوں پر کیوں رہتی ہے؟ جیسے اللہ میاں سے باتیں ہو رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تو مجذوب!
مجذوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتنی بڑی گالی دی ہے ابا نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابا کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میں اسے اٹھارہ بار مجذوب کہہ ڈالتا۔
اور جب اسکا باپ اٹھ کر چوپال کو چلا گیا تو اس نے نہایت رازدار لہجہ میں پوچھا۔ ماں مجذوب کسے کہتے ہیںِ؟
جسے اللہ میاں کے سوا کسی کا خیال نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ میاں کا دوست۔
اور عزیز سوچنے لگا کہ کیا اللہ میاں کا دوست ہونا بھی بری بات ہے؟

وہ صبح اٹھا تو باپ اسکے سرہانے کھڑا تھا۔ اٹھتا ہے کہ جماؤں ایک؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے فکرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لے یہ چونی تیری خاطر دس آدمیوں کی داڑھیوں کو ہاتھ لگانا پڑا، ابھی قصبہ سے جاکر سلیٹ خرید لا، اسکول کیوقت آ جائیو! سمجھے؟

عزیز نے چارپائی سے اٹھ کر زمین پر قدم رھرا تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے اسکا دل پسلیوں تلے ناچ رہا ہے اور اسکی آواز کیساتھ اسکے ہونٹ کانپ رہے ہیں، آنکھیں آپ ہی آپ جھپکی جا رہی ہیں۔ نتھنے پھڑک رہیہیں۔ رگ رگ دھڑک رہی ہے۔ وہ باپ سے چونی چھین کر دوڑا ہی تھا کہ اسے ایک آواز سنائی دی۔

اے مجذوب جوتا تو پہنتا جا تیرا تو سر پھر گیا ہے۔ اس نے مڑنے سے پہلے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اسکا خیال تھا کہ اسکا چہرہ پیٹھ کیطرف ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باپ کے تھپڑ کیوجہ سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر سر پھرنے کا اور کیا مطلب ہے؟ اور جب اسے تسلی ہو گئی کہ وہ اپنی پرانی حالت پر قائم ہے تو اسے تعجب ہونے لگا کہ اسکا باپ اتنا جھوٹ کیوں بولتا ہے؟

وہ جوتا پہن کر بھاگا۔ قصبہ وہاں سے ایک میل دور تھا۔ چونی اسکی قمیض تلے پہنی ہوئی سیاہ صوف کی واسکٹ کی جیب میں تھی جسے اس نے مضبوطی سے ہاتھ میں دبا رکھا تھا۔ ایک دو بار اس نے چونی کے گول گول کونوں کو ٹٹولا، چونی اسکی جیب میں موجود تھی اور نئی سلیٹ قصبہ کی ایک دکان میں اسکی منتظر۔

ایک جگہ قدرے سستانے کیلئے بیٹھ گیا۔ اچانک سامنے جھاڑیوں سے اصغر نکلا۔ اسکے ہاتھ میں اپنی نئی سلیٹ تھی جس کیساتھ مٹھی بھر اسفنج لٹک رہا تھا۔ اصغر نے اپنی سلیٹ کو فخریہ انداز میں ہوا میں گھمایا اور عزیز نے محسوس کیا کہ اسکے ہاتھ میں بھی سلیٹ ہے جو ٹین کیطرح بجتی ہے اور جس کیساتھ ماسٹر جی کی ناک جتنا موٹا اسفنج لٹک رہا ہے۔ ( ماسٹر جی کی ناک عزیز کی مٹھی سے بڑی تھی) اصغر کی آنکھیں جھک گئیں اور وہ پلٹ کر پھر جھاڑی میں گم ہو گیا۔ کتنا پیارا خیال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسا سندر سپنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا اور پھر دوڑنا شروع کر دیا۔

قصبہ کے تنگ و تاریک بازار کی دکانیں کھل چکی تھیں۔ وہ سلیٹوں کی دکان کو خوب پہچانتا تھا۔

shop keeper

shop keeper

دکاندار ایک موٹا سے سیٹھ تھا جس نے اپنی ڈھیلی ڈھالی توند اپنے گھٹنوں پر پھیلا رکھی تھی، وہ صرف ایک دھوتی باندھے ہوئے تھے۔ عزیز کانپتا کانپتا اسکے پاس گیا۔
سلیٹیں ہیں؟ یہ سوال اس نے اس انداز سے پوچھا، گویا وہ ساری دکان خریدنے آیا ہے۔

دکاندار نے اپنی ناف سے بھنبھناتی ہوئی مکھیاں اڑاتے ہوئے جواب دیا۔ ہاں!
دکھاؤ!
دکاندار نے اپنے بازو زمین پر ٹیک کر اٹھنے کی کوشش کی اور بہت دیر تک اسی حالت میں کانپتا رہا۔ عزیز پکارا۔
لالہ جی!
ہاں بھائی ہاں! دکاندار کھڑا ہوا۔ عزیز کے سامنے دس پندرہ سلیٹیں رکھ دیں۔
لوہے کی ہیں؟
سب لوہے کی ہیں۔
دام؟
تین آنے۔

ایک آنہ بچ گیا۔ عزیز کے گال تمتمانے لگے۔ اسکی ننھی سے ناک پر، اسکے کھلے سفید ماتھے پر، اسکے بھرے سے نچلے ہونٹ کے تلے پسینہ پھوٹ آیا۔ اسے محسوس ہوا کہ جسے وہ ابھی یہاں سے دکان سمیت ہوا میں اڑ جائیگا۔
اسفنج ہیں؟
ہاں!
سب سے بڑے اسفنج کے دام؟
چار پیسے۔
عزیز خوشی سے ناچنا چاہتا تھا، ایکبار تو اسکے جی میں آیا کہ دکاندار سے لپٹ کر گائے۔
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔

لیکن اسکی توند دیکھ کر اسکی نظر اپنے پیٹ پر جا پڑی جو ریڑھ کی ہڈی سے چمٹ کر رہ گیا تھا۔ ایک لمحہ کیلئے وہ مسکرانا بھول گیا اور آخر بولا۔

تو لا یہ سلیٹ اور ایک بڑا اسفنج!
دونوں چیزیں اپنے قریب کھسکا کر اس نے قمیض اٹھائی اور واسکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا، اس کی دو انگلیاں جیب سے باہر نکل گئیں چونی راستہ میں گر گئی تھی۔

تحریر: احمد ندیم قاسمی