نہ کوئی خواب نہ سہیلی تھی

na koi khwab na koi saheli

na koi khwab na koi saheli

نہ کوئی خواب نہ سہیلی تھی
اس محبت میں، میں اکیلی تھی

عشق میں تم کہاں کے سچے تھے
جو اذیت تھی ہم نے جھیلی تھی

یاد اب کچھ نہیں رہا لیکن
ایک دریا تھا یا حویلی تھی

جس نے اُلجھا کے رکھ دیا دل کو
وہ محبت تھی یا پہیلی تھی

میں ذرا سی بھی کم وفا کرتی
تم نے تو میری جان لے لی تھی

وقت کے سانپ کھا گئے اس کو
کتنی روشن مری ہتھیلی تھی

نوشی گیلانی