وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچہ تھا

sad man walking

sad man walking

وہی جھکی ہوئی بیلیں، وہی دریچہ تھا
مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا

میں لوٹ آیا ہوں خاموشیوں کے صحرا سے
وہاں بھی تیری صدا کا غبار پھیلا تھا

قریب تر رہا تھا بطوں کا اک جوڑا
میں آبِ جو کے کنارے اُداس بیٹھا تھا

شبِ سفر تھی، قبا تیرگی کی پہنے ہوئے
کہیں کہیں پہ کوئی روشنی کا دھبہ تھا

بنی نہیں جو کہیں پر، کلی کی تُربت تھی
سُنا نہیں جو کسی نے، ہوا کا نوحہ تھا

یہ آڑھی ترچھی لکیریں بنا گیا ہے کون
میں کیا کہوں، مرے دل کا ورق تو سادہ تھا

میں خاکداں سے نکل کر بھی کیا ہوا آزاد
ہر ایک طرف سے مجھے آسماں نے گھیرا تھا

اُتر گیا ترے دل میں تو شعر کہلایا
میں اپنی گونج تھا اور گنبدوں میں رہتا تھا

اُدھر سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی
کہ زیرِ سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا

وہ اس کا عکسِ بدن تھا کہ چاندنی کا کنول
وہ نیلی جھیل تھی یا آسماں کا ٹکڑا تھا

میں ساحلوں میں اُتر کر شکیب کیا لیتا
ازل سے نام مرا پانیوں پہ لکھا تھا

شکیب جلالی