وہ بظاہر جو زمانے سے خفا لگتا ہے

different from people

different from people

وہ بظاہر جو زمانے سے خفا لگتا ہے
ہنس کے بولے بھی تو دنیا سے جدا لگتا ہے

اور کچھ دیر نہ بجھنے دے اسے ربِ سحر!
ڈوبتا چاند مرا دستِ دعا لگتا ہے

جس سے منہ پھیر کے رستے کی ہوا گزری ہے
کسی اُجڑے ہوئے آنگن کا دیا لگتا ہے

اب کے ساون میںبھی زردی نہ گئی چہروں کی
ایسے موسم میں تو جنگل بھی ہرا لگتا ہے !!

شہر کی بھیڑ میں کھلتے ہیں کہاں اس کے نقوش !
آئو تنہائی میں سوچیں کہ وہ کیا لگتا ہے ؟

منہ چھپائے ہوئے گزرا ہے جو احباب سے آج
اس کی آنکھوں میں کوئی زخم نیا لگتا ہے

اب تو محسن کے تصور میں اتر ربِ جلیل
اس اداسی میں تو پتھر بھی خدا لگتا ہے

محسن نقوی