وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے

aaina toot gia

aaina toot gia

وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے

سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری!
میرے دشمن میرے لفظوں کے بھکاری نکلے

اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے

بہتے اشکوں سے شعاعوں کی سبیلیں پھوٹیں
چبھتے زخموں سے فنِ نقش نگاری نکلے

ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے

عکس کوئی ہو خدوخال تمہارے دیکھوں
بزم کوئی ہو مگر بات تمہاری نکلے

اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسن
میرے قاتل تو میرے اپنے حواری نکلے

محسن نقوی