وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی

past sad memories

past sad memories

وہ رُت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی
مہک میں چمپا کلی، روپ میں چنبیلی ہوئی

وہ سرد رات کی برکھا سے کیوں نہ پیار کروں
یہ رُت تو ہے مرے بچپن کی ساتھ کھیلی ہوئی

زمیں پہ پائوں نہیں پڑ رہے تکبر سے
نگارِ غم کوئی دُلہن نئی نویلی ہوئی

وہ چاند بن کے مرے ساتھ ساتھ چلتا رہا
میں اس کے ہجر کی راتوں میں کب اکیلی ہوئی

جو حرفِ سادہ کی صورت ہمیشہ لکھی گئی
وہ لڑکی تیرے لیے کس طرح پہیلی ہوئی

پروین شاکر