وہ سکون جسم وجاں گرداب جاں ہونے کو ہے

flower in water

flower in water

وہ سکون جسم وجاں گرداب جاں ہونے کو ہے
پانیوں کا پھول پانی میں رواں ہونے کو ہے

ماہیء بے آب ہیں آنکھوں کی بے کل پتلیاں
ان نگاہوں سے کوئی منظر نہاں ہونے کو ہے

گم ہوا جاتا ہے کوئی منزلوں کی گرد میں
زندگی بھر کی مسافت رائیگاں ہونے کو ہے

میں فصیل جسم کے باہر کھڑا ہوں دم بخود
معرکہ ساخواہشوں کے درمیان ہونے کو ہے

جاگتا رہتا ہوں اس کی وسعتوں کے خواب میں
چشم حیراں سے بیاں اک داستاں ہونے کو ہے

شام ہوتے ہی عطا کیوں ڈوبنے لگتا ہے دل
کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے اور ناگہاں ہونے کو ہے
عطاء الحق قاسمی