وہ ٹرینیں کبھی نہیں چلا کرتیں

Tahir Razzaq

Tahir Razzaq

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جرمن فوجوں کو فرانس خالی کرنے کا حکم ملا جرمن کمانڈنٹ نے اپنے ماتحتوں کو جمع کر کے حکم دیا کہ جنگ ختم ہو چکی ہے ۔ہم ہار چکے ہیں اور فرانس ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگلے پچاس برسوں تک ہم میں سے کسی کو فرانس میں داخلے کی اجازت نہ ملے لہٰذا تم لوگ پیرس کے عجائب گھروں ،نوادرات سے بھرے نمائش گھروں ،اور ثقافت سے مالا مال ہنر کدوں سے جو سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لوتا کہ جب فرانسیسی منتظمین اس ملک کا نظم ونسق سنبھالیں تو انہیں فرانس سے جلی راکھ پھٹے پرانے کاغذوں اور مرجھائے ہوئے چہروں کے علاوہ کچھ نہ ملے جنرل کا حکم ملنے کی دیر تھی کہ تمام آفیسر اور جوان ان جگہوں پر ٹوٹ پڑے اور اربوں ڈالر کے نوادرات سمیٹ لائے جب عجائب گھر خالی ہوگئے ،ہنر کدوں میں ویرانی چھا گئی ،نوادرات سے بھر ے نمائش گھر ویران ہوگئے تو جنرل نے سارے نوادرات ایک ٹرین میں بھرنے اور ڈرایئورکو یہ سب کچھ جرمنی لے جانے کا حکم دے دیایہ ٹرین روانہ تو ہو گئی مگر شہر سے باہر نکلتے ہی اس کا انجن جواب دے گیا۔

انجینئر آئے ٹرین کا انجن ٹھیک کیا اور ٹرین کو روانہ کیا لیکن کچھ سفر طے کرنے کے بعد اس کے پہئے جام ہوگئے انجینئر آئے اس کے پہئے ٹھیک کئے ٹرین پھر روانہ ہوئی لیکن چند کلو میٹر بعد بوائلر پھٹ گیا پھر انجینئر آئے بوائلر مرمت کیا گیا اور ایک مرتبہ پھر ٹرین کو جانب منزل روانہ کر دیا گیا لیکن اس بار تھوڑا سا سفر طے کرنے کے بعد پریشر بنانے والے پسٹن جواب دے گئے ،انجینئر آئے پسٹن بدلے گئے اور ٹرین پھر چلی۔۔۔قصہ مختصر ٹرین خراب ہوتی رہی جرمن انجینئر اسے ٹھیک کرتے رہے ،یہاں تک کہ یورپ پر جرمن اقتدار ختم ہوگیا ،نازی فوجیں واپس چلی گئیں اور فرانس دوبارہ فرانسیسی منتظمین کے قبضے میں آ  گیا ۔

لیکن ٹرین جرمنی کے بارڈر سے کہیں پیچھے خراب ہوتی رہی ،ٹھیک ہوتی رہی اور پھر ایک روز ڈرائیور کو پیغام ملا ،موسیو،(ٹرین کے ڈرائیور کا نام )آپ کا بہت بہت شکریہ اب ٹرین جرمنی نہیں واپس پیرس آئے گی ،ہم آزاد ہو چکیے ہیں ۔ڈرائیور نے انگلیاں تیہ کر کے مکا بنایاہوا میں لہرایا اور ایک نعرہ بلند کرتے ہوئے واپس پیرس چل پڑا ۔تاریخ کہتی ہے جب یہ ٹرین چھکا چھک کرتی پیرس کے ریلوے سٹیشن پر رکی تو فرانس کی ساری لیڈر شپ پلیٹ فارم پر اس ڈرائیور کے استقبال کیلئے کھڑی تھی ڈرائیور پر گل پاشی کی گئی اس کامات ھا چوما گیا اور پھر اس کے ہاتھ میں مائکرو فون تھما دیا گیا۔

تھکان سے چور ڈرائیور نے ایک لمبا سانس لیا اور پھر وہاں پر موجود ہجوم کو مخاطب کر کے بولا حضرات ،جرمن احمقوں نے نوادرات تو ٹرین میں بھر دئیے لیکن یہ بھول گئے کہ ڈرائیور تو فراسینسی ہے ،اور اگر ڈرائیور نہ چاہے تو گاڑیاں کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتیں عرصے کے بعد ہالی وڈ نے اس ڈرائیور پر ۔دی ٹرین ،کے نام سے فلم بنائی جس کا شمار دنیا کی مقبول ترین فلموں میں ہوتا ہے ،پاکستانی ٹرین کا بھی حال بھی پچھلے 65 سالوں سے کچھ اسی طرح سے ہے اتنے لمبے عرصے میں یہ ٹرین کوئی قابل زکر سفر طے نہیں کر پائی اس کو جب بھی چلانے کی کوشش کی گئی ،کبھی اس کا انجن جواب دے گیا ،کبھی اس کا بوائلر پھٹ گیا ،کبھی اس کے پریشر بنانے والے پسٹن ناکارہ ہوگئے ،اور کبھی اس کے پہیئے ،جام، ہو گئے،جی ہاں میرے ہم وطنوں اس ٹرین (پاکستان)کے مسافرو ،یہ ٹرین آج بھی اپنی منزل سے کوسوں دور کھڑی ہے ۔

جب تک دوہری شہریت والے،اس عوام کا خون نچوڑ نچوڑ کر سوئس اکا ونٹ میں مال بھرنے والے ،اس ملک کے انچ انچ کا سودا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنے والے،اس ملک سے باہر اربوں روپے کی پراپرٹی خریدنے والے،اس ملک سے باہر ملیں اور فیکٹریاں لگانے والے ،اس ملک کے بہترین ٹیلنٹ کو غیروں کی جھولیوں میں ڈالنے والے ،گوادر پر امریکی جھنڈا لہرانے والے ،جب تک 80 فیصد قابل کاشت زرعی رقبے پر قبضہ جما نے والے،جب تک گھوڑوں کو کروڑوں روپے کا مربہ کھلانے والے، جب تک غریب عوام کے پیسے سے لند ن اور یورپ میں جا کر عیاشیاں کرنے والے ،جب تک پاکستان سٹیل مل کو سفید ہاتھی بنانے والے، ا پنے ملک کی بجائے اپنی اولادوں کا دوسرے ملکوں میں پڑہانے والے،اس ملک کی معدنیات کوچاٹنے والے ،اس ملک میں جمہوریت ایک ،گالی ، بنانے والے ، اسلام کو پر تشدد مذہب اور اس ملک کے اٹھا رہ کروڑ عوام کو بکھاری بنانے والے ۔

اس ٹرین( پاکستان) کے ڈرائیور بنتے رہیں گے تو سچ مانئے یہ ٹرین کبھی بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائے گی ،کیو ں کہ جب ڈرائیور کی نیت میں ہی فتور ہو گا وہ آدھا ہندوستانی اور آدھا انگلستانی ہو گا تو وہ کبھی بھی اس ٹرین کو نہیں چلنے دے گا جی ہاں ٹرین اسی طرح خراب اور ٹھیک ہوتی رہے گی اور اگر اب بھی اس کے ڈرائیور تبدیل نہ کئے گئے تو یقین مانئے یہ اٹھا رہ کروڑ مسافر منزل کی امید دل میں لئیئے آخری ہچکیاں لے رہے ہوں گے مگر اس ٹرین کی منزل کا دور دور تک بھی کوئی نشاں ہوگا۔

تحریر : طاہر رزاق